صدرِ مملکت آصف علی زرداری نے پیکا ترمیمی بل 2025 کی منظوری دے دی، جس کے بعد یہ متنازع قانون نافذ العمل ہوگیا۔تفصیلات کے مطابق، صدرِ مملکت آصف علی زرداری نے الیکٹرانک جرائم کی روک تھام (ترمیمی) بل 2025 (پیکا) کی توثیق کر دی۔ صدر کے دستخط کے بعد یہ متنازع ایکٹ قانون کی شکل اختیار کر گیا۔
مزید برآں، صدرِ مملکت نے ڈیجیٹل نیشن پاکستان بل 2025 کی بھی منظوری دے دی، جبکہ آصف زرداری نے نیشنل کمیشن آن دی اسٹیٹس آف ویمن (ترمیمی) بل 2025 کی بھی توثیق کردی۔
یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ پیکا ایکٹ ترمیمی بل، ڈیجیٹل نیشن پاکستان بل اور نیشنل کمیشن آن دی اسٹیٹس آف ویمن (ترمیمی) بل 2025 منظوری کے لیے ایوانِ صدر بھیجے گئے تھے۔
اس سے قبل، پارلیمانی رپورٹرز ایسوسی ایشن (پی آر اے) نے دعویٰ کیا تھا کہ صدر آصف علی زرداری نے مولانا فضل الرحمان کی درخواست پر پیکا ترمیمی بل پر فوری دستخط نہ کرنے پر اتفاق کیا تھا اور پی آر اے پاکستان کی سفارشات موصول ہونے تک اس پر دستخط روک دیے تھے۔
یہ بھی یاد رہے کہ گزشتہ روز قومی اسمبلی کے بعد سینیٹ نے بھی پیکا ایکٹ ترمیمی بل کو منظور کیا تھا، تاہم اس بل کی منظوری کے دوران اپوزیشن کی جانب سے سخت مخالفت اور احتجاج دیکھنے میں آیا، جبکہ صحافیوں نے بھی سینیٹ اجلاس کے دوران واک آؤٹ کیا۔
علاوہ ازیں، صحافتی تنظیموں نے ملک بھر میں اس متنازع پیکا ایکٹ ترمیمی بل کے خلاف احتجاج کیا اور اسے ایک کالا قانون قرار دیا۔
وفاقی حکومت نے 22 جنوری کو پیکا ایکٹ ترمیمی بل 2025 قومی اسمبلی میں پیش کیا تھا۔
دی پریوینشن آف الیکٹرانک کرائم ایکٹ (ترمیمی) بل 2025 میں دفعہ 26 (اے) کا اضافہ کیا گیا ہے، جس کے تحت آن لائن ’جھوٹی خبروں‘ کے مرتکب افراد کے لیے سزا تجویز کی گئی ہے۔ ترمیمی بل میں واضح کیا گیا ہے کہ جو شخص جان بوجھ کر گمراہ کن معلومات پھیلاتا ہے یا اسے کسی دوسرے کو بھیجتا ہے، جس سے سماج میں خوف یا بےچینی پیدا ہوسکتی ہے، تو اسے تین سال تک قید، 20 لاکھ روپے تک جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جا سکتی ہیں۔
پیکا ایکٹ ترمیمی بل 2025 کے تحت سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی کا مرکزی دفتر اسلام آباد میں قائم کیا جائے گا، جبکہ دیگر دفاتر صوبائی دارالحکومتوں میں بھی ہوں گے۔
ترمیمی بل کے مطابق، اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی رجسٹریشن، معیارات کے تعین، اور غیر قانونی مواد کے خلاف کارروائی کی مجاز ہوگی۔ صارفین کے حقوق اور تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے یہ اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ساتھ تعاون کرے گی اور غیر قانونی سرگرمیوں کے خلاف فوری اقدامات اٹھائے گی۔
اتھارٹی کو یہ اختیار بھی حاصل ہوگا کہ وہ کسی بھی سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے خلاف تادیبی کارروائی کرے اور متعلقہ اداروں کو غیر قانونی مواد ہٹانے کی ہدایت جاری کرے۔ اس کے علاوہ، متاثرہ افراد کو 24 گھنٹوں کے اندر اتھارٹی سے شکایت درج کرانے کا پابند بنایا جائے گا۔
ترمیمی بل کے مطابق، یہ اتھارٹی مجموعی طور پر 9 اراکین پر مشتمل ہوگی، جس میں سیکریٹری داخلہ، چیئرمین پی ٹی اے، اور چیئرمین پیمرا بطور ایکس آفیشو اراکین شامل ہوں گے۔ اس کے علاوہ، بیچلرز ڈگری اور کم از کم 15 سالہ متعلقہ تجربہ رکھنے والے فرد کو اتھارٹی کا چیئرمین مقرر کیا جائے گا، جس کی تعیناتی پانچ سالہ مدت کے لیے ہوگی۔
حکومت نے اس اتھارٹی میں صحافیوں کی نمائندگی دینے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ ایکس آفیشو اراکین کے علاوہ، دیگر 5 اراکین میں 10 سالہ تجربہ رکھنے والا صحافی، ایک سافٹ ویئر انجینئر، ایک وکیل، سوشل میڈیا ماہر اور نجی شعبے سے ایک آئی ٹی ماہر شامل ہوگا۔
ترمیمی ایکٹ پر عملدرآمد کے لیے وفاقی حکومت ایک سوشل میڈیا پروٹیکشن ٹربیونل بھی قائم کرے گی، جس کا چیئرمین ہائی کورٹ کا سابق جج ہوگا، جبکہ صحافی اور سافٹ ویئر انجینئر بھی ٹربیونل کا حصہ ہوں گے۔