وزیرِاعظم شہباز شریف نے کاروباری برادری کو برآمدات میں اضافے کے لیے اقدامات کرنے پر زور دیتے ہوئے بلند ٹیکسز کا اعتراف کیا اور کہا کہ اگر میرے اختیار میں ہوتا تو میں فوراً 15 فیصد ٹیکس کم کر دیتا، لیکن مناسب وقت پر ایسا ممکن ہوگا۔
اسلام آباد میں وفاقی حکومت کے زیر اہتمام یومِ تعمیر و ترقی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِاعظم نے کہا کہ آج کا یہ اجتماع اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ پاکستان نے ایک سال کے دوران اندھیروں سے نکل کر روشنی کی جانب جو سفر طے کیا، وہ کسی ایک فرد کی کاوش نہیں بلکہ ایک اجتماعی کوشش کا نتیجہ ہے۔
انہوں نے یاد دلایا کہ جون 2023 میں پیرس میں ایک کانفرنس ہوئی تھی، اس وقت عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کا پروگرام شدید مشکلات کا شکار تھا، کیونکہ ان کی شرائط سخت تھیں۔ ملک بھر میں مہنگائی کے طوفان نے عام شہریوں کی زندگی اجیرن بنا دی تھی، مگر عوام نے صبر و استقامت کا مظاہرہ کیا اور ان ہی قربانیوں کی بدولت آج ہم یہاں تک پہنچے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پیرس میں آئی ایم ایف کی مینیجنگ ڈائریکٹر سے ملاقات ہوئی، جہاں انہوں نے واضح کیا کہ وقت نکل چکا ہے اور معاہدہ مشکل دکھائی دیتا ہے۔ تاہم، جب میں نے ان سے تفصیل پوچھی تو معلوم ہوا کہ فنڈنگ میں ایک خلا موجود ہے۔ اس پر ہم نے اسلامی ترقیاتی بینک سے ایک ارب ڈالر کے حصول کی درخواست کی، مگر ابتدا میں انہوں نے معذرت کر لی۔
وزیرِاعظم نے کہا کہ میں نے اس وقت کے وزیرِ خزانہ کو صورتحال سے آگاہ کیا، جس کے بعد بجٹ میں فوری ترامیم کی گئیں۔ اس کے نتیجے میں اگلے ہی روز آئی ایم ایف اور اسلامی ترقیاتی بینک نے ایک ارب ڈالر کی فراہمی کا وعدہ کر لیا۔
انہوں نے کہا کہ ملک کو خود کفیل بنانے کے لیے ہم کاروباری طبقے کے ساتھ مشاورت کے ذریعے پالیسیاں تشکیل دیں گے۔ مشکل فیصلے کیے جا چکے ہیں، اور انہی کی بدولت ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ستمبر میں آئی ایم ایف کے ساتھ 7 ارب ڈالر کا معاہدہ طے پایا، اور اجتماعی محنت کے باعث ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچایا گیا۔ میں سابقہ حکومت پر تنقید نہیں کرنا چاہتا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ معیشت تباہ حالی کا شکار تھی، سرمایہ کاری کے مواقع محدود ہو چکے تھے اور مہنگائی کی شرح 40 فیصد تک جا پہنچی تھی۔
وزیرِاعظم نے کہا کہ مہنگائی کی وجہ سے عام شہری کو شدید مشکلات کا سامنا رہا، جبکہ تنخواہ دار طبقے نے 300 ارب روپے ٹیکس ادا کیا۔
شہباز شریف نے کہا کہ افغانستان سے ہونے والی اسمگلنگ کو روکا گیا، جس کے نتیجے میں رواں سال 211 ملین ڈالر کی چینی برآمد کی گئی۔
انہوں نے کہا کہ 2018 میں دہشت گردی پر قابو پا لیا گیا تھا، لیکن بدقسمتی سے یہ مسئلہ دوبارہ سر اٹھا چکا ہے۔ ہمیں یہ سوال ضرور اٹھانا ہوگا کہ دہشت گردی کیوں واپس آئی؟
وزیرِاعظم نے اپنے خطاب کے اختتام پر کہا کہ اگر میرے بس میں ہوتا تو میں 15 فیصد ٹیکس فوری کم کر دیتا، لیکن اس کے لیے مناسب وقت کا انتظار کرنا ہوگا۔