اسلام آباد پولیس کی جواں سالہ لیڈی کانسٹیبل اقراء دختر نذیر احمد پراسرار طور پر زندگی کی بازی ہا رگئی ۔
پولیس کے مطابق متوفیہ کے والدین کراچی میں رہائش پذیر ہیں اور وہ مانسہرہ کے رہنے والے ہیں۔
لیڈی پولیس کانسٹیبل کو اسپتال لانے والے ایس پی ٹریفک سید عارف حسین شاہ نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ اقراء میری بیٹی کی طرح تھی، وہ 11بجے بینک کےلیے گئی جہاں سے وہ میرے گھر پر آئی،گھر پر آنے کے کچھ دیر بعد اسے خون کی الٹیاں شروع ہوگئیں۔
عارف حسین نے مزید بتایا کہ میں اپنے ملازم کے ساتھ اسے پولی کلینک لے گیا جہاں اس کاعلاج جاری تھا کہ تقریباً گھنٹے کے بعد اس کی موت واقع ہو گئی۔
انہوں نے کہا کہ پولی کلینک کے ریکارڈ میں میرا نام ہے، اقراء کا ڈیتھ سرٹیفکیٹ بھی میں نے ہی وصول کیا، تمام شکوک شبہات کلیئر کرنے کے لیے اس کا پوسٹ مارٹم کروایا گیا ہے۔
ذرائع کے مطابق اس سے قبل یہ افواہ گردش کرتی رہی کہ اسلام آباد پولیس کی لیڈی کانسٹیبل کی کفن میں لپٹی لاش پولی کلینک لائی گئی جسے لانے والے نے خود کو اسلام آباد پولیس کا ڈی ایس پی ظاہر کیااور ایمرجنسی میں عملے کو بتایاگیاکہ وہ سول سرجن عابد شاہ کے ریفرنس سے آئے ہیں۔
اس کو لانے والے نے اپنا نام طاہر نیازی بتایا، عملے کو ابتدائی طورپر بتایا گیاکہ لڑکی اس کی بھتیجی ہے اور اس نے غلطی سے گندم والی زہریلی گولیاں کھا لی ہیں۔
بعدازاں جب ڈاکٹروں نے معائنہ کیا تو وہ جاں بحق ہوچکی تھی جس کے بعد معاملہ پولیس کے نوٹس میں لایاگیا اور پھر یہ خبر پھیلی کہ لاش لیڈی کانسٹیبل اقراء کی ہے۔
یہ بھی پتا چلاکہ وہ دن گیارہ بجے پولیس لائن سے بینک جانے کا کہہ کرنکلی اور پھر شام چار بجے اس کی لاش کی اطلاع ملی، یہ مؤقف بھی سامنے آیا کہ کوئی نامعلوم اس کی لاش کو اسپتال چھوڑ گیا۔
دوسری جانب آئی جی اسلام آباد نے لیڈی کانسٹیبل کی موت کی رپورٹ طلب کر لی ہے اور ایس ایس پی آپریشن کو ہدایت کی ہے کہ معاملے کو میرٹ پر دیکھاجائے کسی سے کوئی رعایت نہیں ہونی چاہیے ۔
ترجمان اسلام آباد پولیس کے مطابق لیڈی کانسٹیبل اقراء کی موت معاملے کی تہہ تک پہنچنے کے لیے آئی جی اسلام آباد نے انکوائری کمیٹی بنا دی ہے۔