اسلام آباد (نیوز رپورٹر) نوکری کا جھانسہ اور سہانے سپنے دکھا کرپاکستانی خواتین کی سربیامیں منتقلی کا ایک اور انسانی سمگلنگ سکینڈل منظر عام پر آگیا ۔اور اس بار انسانی سمگلنگ مافیا کے ساتھ سربیا میں تعینات پاکستانی سفیر بھی ملوث نکلا ،خواتین کو اعلیٰ نوکری اور ڈھیر سارے پیسوں کا لالچ دے کر سربیا بجھوایا جاتا ہے پڑھی لکھی ان پاکستانی خواتین کو وہاں گارڈنز سمیت دیگر بیگار کیمپوںمیں کام کروائے جاتے ہیں ۔اور پیسے بھی نہیں دیے جاتے ،اتفاق کی بات ایسی کہ چند خواتین مدد کیلئے سربیامیں قائم پاکستان سفارتخانے میں مدد کیلئے جاپہنچی تو وہا ں موجود پاکستانی سفیر علی حیدر الطاف نے مدد کے بجائے ان خواتین کو دھکے دے کر سفارتخانے سے باہر نکال دیا۔وزیراعظم کی ہدایت پر وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے معاملے کی تحقیقات کے لئے دو رکنی ٹیم سربیا روانہ کر دی ہے تاکہ خواتیں کے تحفظ کو سو فیصد یقینی بنایا جا سکے اور ظلم کرنے والے تمام کرداروں کو بے نقاب کیا جاسکے ۔تازہ ترین ملنے والی معلومات کے مطابق زیادہ تر خواتین گلگت بلتستان سے ورغلا کر لیجائی گئیں ۔اور جب صالحہ راجپوت خواتین کو سبز باغ دکھا رہی تھی تو عین اس وقت صالحہ راجپوت کا ماضی جاننے والے گلگت کے کچھ سماجی کارکن لوگوں کے گھروں میں جاکر بتا رہے تھے کہ یہ جھوٹی اور فراڈ عورت ہے ۔لیکن اس کے باوجود اس عورت نے گلگت کی کچھ پڑھی لکھی اور کچھ نیم خواندہ خواتین کو اپنے جال میں پھانس لیا اور انہیں سربیامیں پاکستان کے سفیر علی حیدر الطاف کی مدد سے سربیا میں لے گئی۔ان زیادہ تر خواتین کا تعلق اسماعیلی فرقے سے ہے۔
پاکستان کے سربیا میں سفیر علی حیدر نے ان خواتین کے ویزوں کے لئے کئی نوٹ وربل لکھے جو کہ ایک سفارتی جرم سمجھا جاتا ہے۔پہلی پرواز میں 24 خواتین سربیا پہنچیں اور اور دو دن کے وقفے کے مزید 24 مزید خواتین سربیا پہنچا دی گئیں۔اور صالحہ راجپوت نے ائیرپورٹ پر اترتے ہی ان خواتین کو جارج نامی سربین ایجنٹ کے حوالے کر دیا۔ان خواتین سے کھیتوں میں کھیرے توڑنے کا کام لیا جاتا رہا ان میں کچھ لیڈی ڈاکٹر اورکچھ نرسز بھی تھیں لیکن ان سب کو وعدوں کے برعکس کھیرے توڑنے پر لگا دیا گیا۔ظلم کا شکار ہونیوالی خواتین نے بتا یا کہ وہ مدد کے لئے سربیا میں پاکستان کے سفیر کے پاس گئیں لیکن انہیں دوبارہ جارج کے حوالے کر دیا گیا ۔صالحہ راجپوت مسلسل ان خواتین سے جھوٹے وعدے کرتی رہی اور جب تنخواہ لینے کا وقت آیا جوکہ 600 یورو طے ہوا تھا تو صالحہ اور جارج نے ایک ماہ کی تنخواہ یہ کہہ کر دبا لی کی سربیا کے قانون کے مطابق ایک ماہ کی تنخواہ بطور سیکیورٹی رکھی جاتی ہے ۔اس دوران سفیر علی حیدر الطاف نے مزید 150 خواتین کی ڈیمانڈ کے لئے نوٹ وربل جاری کردیا اور ایک دوسرے نوٹ وربل میں 25 مرد ویزوں کی ڈیمانڈ پر علی حیدر الطاف نے دستخط کر دئیے جبکہ دوسری طرف پہلے بھجوائی گئی خواتین کو ایک طرف تنخواہ نہ دی گئی اور ساتھ ہی جارج اور صالحہ نے ان کی طے شدہ تنخواہ سے کھانے کے پیسے اور گندی رہائش کے پیسے کاٹنا شروع کردئیے ۔
متاثرہ خواتین کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا گیا اور ابھی تک رکھا جا رہا ہےوہ ناقابل بیان ہے ۔ان خواتین میں ایسی بھی ہیں جو شوگر کی مریضہ ہیں اور کچھ کو بلڈ پریشر کا عارضہ لاحق ہے اسوقت ان کے پاس میڈیسن کے بھی پیسے نہیں ۔جارج اور صالحہ نے رمضان کے مقدس مہینے میں بھی ان کے کھانے پینے کا خیال نہیں رکھا۔اور جارج نے سب سے پاسپورٹ بھی لیکر اپنے قبضے میں رکھے ہوئے ہیں ۔ایک طرف پاکستان کے سفیرکے وہ نوٹ وربل ریکارڈ پر موجود ہیں جو انکے شریک جرم ہونے کی گواہی دے رہیے ہیں جبکہ دوسری طرف جارج اور صالحہ راجپوت کا ان خواتین کے ساتھ مسلسل غیر انسانی سلوک اس بات کا تقاضہ کر رہا ہے کہ انہیں قانون کے کٹہرےمیں لایا جائے ۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ وزیر خارجہ اسحاق ڈار کے حکم پر جانے والی دو رکنی تحقیقاتی ٹیم کیا حقائق پپ مبنی رپورٹ تیار کرے گی یا علی حیدر الطاف اور صالحہ راجپوت کے تمام جرموں کو ساتھ پردوں میں لپیٹا جائے گا۔نمائندے نے اس حوالے علی حیدر الطاف اور وزارت خارجہ کے ترجمان کا موقف جاننے کے لئے تحریری سوالنامے بھیجے لیکن تااحال ان کا کوئی جواب نہیں دیا گیا۔