پی ٹی آئی ممنوعہ فارن فنڈنگ کیس ، ریکارڈ اکبر ایس بابر کو دینے سے روکنے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ

اسلام آباد(سی این پی)اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اخترکیانی کی عدالت نے پی ٹی آئی ممنوعہ فارن فنڈنگ کیس کا ریکارڈ اکبر ایس بابر کو دینے سے روکنے کی درخواست میں وکلاء کے دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔گذشتہ روز سماعت کے دوران اکبر ایس بابر کے وکیل احمد حسن، الیکشن کمیشن کی جانب سے خرم شہزاد عدالت میں پیش ہوئے، خرم شہزاد نے عدالت کو بتایاکہ سکروٹنی کمیٹی نے فائنل رپورٹ ای سی پی میں جمع کرا دی ہے، شاہ خاور نے رپورٹ پبلک نہ کرنے کی درخواست دی تھی،ای سی پی نے درخواست مسترد کرتے ہوئے رپورٹ پبلک کی،ہم نے ای سی پی کو کہا تھا کہ رپورٹ پبلک نہ کریں دوسری پارٹی کو دے دیں، انور منصور ایڈووکیٹ نے کہاکہ ہم نے کہا تھا کہ جو دستاویزات ہم نے جمع کرائی ہیں وہ پبلک نہ کی جائیں، خرم شہزاد ایڈووکیٹ نے کہاکہ ان کی دستاویزات رپورٹ کا حصہ ہیں، انورمنصور ایڈووکیٹ نے کہاکہ میں نے ابھی جو دستاویزات جمع کرائی ہیں ان کو شیئر کرنے سے منع کرنے کی استدعا کی ہے، عدالت نے استفسار کیاکہ سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ کب آئی تھی،جس پر خرم شہزاد ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایاکہ 4 جنوری 2022ء کورپورٹ آئی تھی، عدالت نے استفسار کیاکہ کیا اب اس پر مزید کاروائی کا آغاز ہو چکا ہے؟ جس پر انور منصور ایڈووکیٹ نے کہاکہ سکروٹنی کمیٹی نے جو انکوائری کی اس کو شیئر نہ کرنے کی درخواست کی تھی،ای سی پی کی کاروائی انتظامی عمل ہے۔ اس میں شکایت کی بجائے انفارمیشن کا لفظ استعمال کیا گیا ہے، انتظامی اختیارات جوڈیشل نوعیت کی نہیں ہوتیں،ای سی پی ایک آئینی ادارہ ہے جس کا کام شفاف الیکشن کرانا ہے،ای سی پی خود مختار ادارہ ہے۔ اس کو الیکشن ٹربیونل بنانے کا بھی اختیار ہے جو جوڈیشل پاورز استعمال کر سکتا ہے،جبکہ ای سی پی کوئی کورٹ نہیں ہےوہ صرف انتظامی پاور استعمال کر سکتا ہے،ای سی پی اپنے آپ کو فارن فنڈنگ کی انکوائری اور جانچ تک محدود رکھے،سکروٹنی کمیٹی نے اکبر ایس بابر کی انفارمیشن مسترد کر دی تھیں،اب ای سی پی اپنے طور پر حاصل کئے ہوۓ دستاویزات پر مزید کاروائی کر رہا ہے،عدالت نے استفسار کیاکہ کیا ہم ای سی پی کو کسی بھی کاروائی سے روک سکتے ہیں،جس پر انور منصور ایڈووکیٹ نے کہاکہ میں ای سی پی کو روکنے کی بات نہیں کر رہا ہوں،ای سی پی اکبر ایس بابر کو بلا کر اس کے فراہم کردہ دستاویزات پر سوال کر سکتا ہے، احمد حسن ایڈووکیٹ نے کہاکہ اصل کیس ہے کہ یہ شروع میں مجھے دستاویزات نہیں دے رہے تھے اور ہماری دستاویز لے لیتے تھے،ہمیں صرف ای سی پی میں بیٹھ کر دستاویزات دیکھنے کی اجازت دی گئی،سکروٹنی کمیٹی نے ہماری پوری گذارشات نہیں سنیں، عدالت نے کہاکہ ہم ان تفصیلات میں نہیں جائیں گے صرف یہ سنیں گے کہ ای سی پی آپ کو سنے اور دستاویزات دے یا نہیں، احمد حسن ایڈووکیٹ نے کہاکہ پولیٹیکل پارٹیز آرڈر کی شق نمبر 54 کے مطابق ہمیں حق ہے کہ انفارمیشن لیں،اگر ہمارا حق نہ ملا تو عدالت سے رجوع کرنے کا حق رکھتے ہیں،ای سی پی کو اختیار ہے کہ وہ کسی کو سنے یا نہ سنے،فیصلہ اس بات کا ہونا ہے کہ فارن فنڈنگ ہوئی ہے ہمارا رول انفارمر یا درخواستگزار کا ختم بھی ہو جائے، ہم اسسٹ تو کر سکتے ہیں، وکلاء کے دلائل مکمل ہونے پر عدالت نے فیصلہ محفوظ کر لیا۔