اسلام آباد ( سٹاف رپورٹر )قومی اسمبلی نے وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق کے 30 جون 2026 کو ختم ہونے والے مالی سال کے اخراجات پورے کرنے کے لئے 34 ارب 4 کروڑ 64 لاکھ کے 3 مطالبات زر کی منظوری دیدی جبکہ اپوزیشن کی طرف سے پیش کی گئی کٹوتی کی 98 تحاریک کثرت رائے سے مسترد کر دی گئیں ، اپوزیشن کی جانب سے ان مطالبات زر پر کٹوتی کی تحاریک جمع کروائی گئی تھیں جو عالیہ کامران، عامر ڈوگر،خواجہ شیراز اور دیگر نے پیش کیں۔ وفاقی وزیر قومی غذائی تحفظ و تحقیق رانا تنویر حسین نے کٹوتی کی تحاریک پر بحث کو سمیٹتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم زرعی شعبہ کو اولین ترجیح دے رہے ہیں، آج بھی وزیراعظم نے دو اجلاسوں کی صدارت کی ہے۔ وزیراعظم سمجھتے ہیں کہ یہ شعبہ اہمیت کا حامل ہے، کیونکہ 65 فیصد آبادی کا تعلق اسی شعبہ سے ہے، حکومت نے کئی ورکنگ گروپس اور ٹاسک فورس بھی قائم کی ہیں ، انہوں نے کہا کہ اس وقت فی ایکڑ پیداوار میں اضافے پر ہماری بھرپور توجہ ہے، ملک میں کھادوں کی کوئی قلت نہیں ہے اور نہ ہی قیمتوں میں کوئی اضافہ ہوا ہے، اس وقت فکس قیمت سے 100 روپے کم پر کھادیں فروخت ہو رہی ہیں، ہمارے پاس اضافی کھاد کی صورت میں ہم اس کو برآمد کرنے کے بھی قابل ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اہم فصلوں کی پیداوار میں زیادہ کمی نہیں ہوئی ہے۔ مکئی ، آلو اور گنے کی پیداوار میں اضافہ ہوا ہے۔ کاٹن کی پیداوار کم ہوئی ہے جس پر ہماری بھرپور توجہ ہے۔ گزشتہ سال 45 سال گانٹھیں حاصل کی گئی تھیں رواں سال ایک کروڑ گانٹھیں حاصل کرنے کا ہدف ہے۔ کاٹن کی مقامی پیداوار میں اضافہ اور زمینداروں کے تحفظ کیلئے درآمدی کاٹن پر 18 فیصد ڈیوٹی عائد کی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں ٹیوب ویلوں کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے پر پچاس ارب روپے خرچ کئے گئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ پی اے آر سی کی ری سٹرکچرنگ ہو رہی ہے اس مقصد کیلئے چین اور امریکہ سے بھی معاونت لی جا رہی ہے۔ پاسکو کو ختم کیا جا رہا ہے، گنے اور گندم کو ڈی ریگولیٹ کرنے سے اگرچہ فی الحال نقصان ہوا ہے تاہم اگلے سال مارکیٹ فورسز کی وجہ سے صورتحال میں بہتری آ جائے گی۔ پلانٹ پروٹیکشن کے محکمے کو بھی ری سٹرکچر کیا جا رہا ہے، گزشتہ سال 8 ارب ڈالر کی زرعی برآمدات ریکارڈ کی گئی تھیں۔ اس سال اس میں مزید اضافہ ہو گا۔ زراعت میں میکانائزیشن اور ٹیکنالوجی پر بھی کام ہو رہا ہے ، قومی غذائی تحفظ و تحقیق پر پیش کی گئی کٹوتی کی تحاریک پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے انور تاج، صاحبزادہ صبغت اللہ، خواجہ شیراز محمود نے کہا کہ پاکستان زرعی ملک ہے لیکن یہاں کسان کا کوئی پرسان حال نہیں، اجناس کی پیداوار میں کمی ہو رہی ہے،کاشتکاروں کا استحصال ہو رہا ہے، گنے کے کاشتکار کو فائدہ دینے کی بجائے باہر سے چینی درآمد کرتے ہیں۔ زرعی شعبہ میں کوئی موافق سیڈ متعارف نہیں کرائے جا سکے، زرعی اراضی پر ہائوسنگ سوسائٹیز بنانے کی ممانعت ہونی چاہئے۔ سپیکر نے بعد ازاں کٹوتی کی تحریکیں ایوان میں پیش کیں جنہیں مسترد کر دیا گیا جبکہ انہوں نے مطالبات زر منظوری کیلئے پیش کئے جنہیں ایوان نے منظور کر لیا۔