ڈپٹی سپیکر کی رولنگ سے متعلق کیس جلد نمٹانا چاہتے ہیں، نگران حکومت کا قیام کیس کی وجہ سے رکا ہوا ہے، چیف جسٹس

سپریم کورٹ میں ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ کیس جلد نمٹانا چاہتے ہیں، نگران حکومت کا قیام کیس کی وجہ سے رکا ہوا ہے۔

چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے اس معاملے پر لیے گئے از خود نوٹس اور متعدد فریقین کی درخواستوں پر سماعت کی۔

آج سماعت کے آغاز میں درخواست گزاروں میں سے ایک خاتون نے روسٹرم پر آکر کہا کہ امریکا میں تعینات رہنے والے سفیر اسد امجید کو بلایا جائے تو سب سامنے آ جائے گا۔

چیف جسٹس نے خواتین درخواست گزاروں کو بات کرنے سے روکتے ہوئے کہا کہ سیاسی جماعتوں کو سنیں گے۔

پیپلز پارٹی کے رہنما سینیٹر رضا ربانی نے دلائل کے آغاز میں کہا کہ الیکشن کمیشن کا میڈیا میں بیان آیا ہے کہ 3 ماہ میں انتخابات ممکن نہیں، کوشش ہے کہ آج دلائل مکمل ہوں اور مختصر فیصلہ آ جائے۔

تاہم الیکشن کمیشن میں انتخابات کے انعقاد سے متعلق کوئی بھی بیان جاری کرنے کی تردید کی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم بھی جلدی فیصلہ چاہتے ہیں لیکن تمام فریقین کا مؤقف سن کر دیں گے۔

رضا ربانی نے کہا کہ عدالت کو دیکھنا ہے کہ پارلیمانی کارروائی کو کس حد تک استثنٰی حاصل ہے، جو کچھ ہوا اس کو سویلین مارشل لا ہی قرار دیا جاسکتا ہے، سسٹم نے ازخود ہی اپنا متبادل تیار کرلیا جو غیرآئینی ہے۔

رضا ربانی نے کہا کہ اسپیکر کی رولنگ غیر قانونی تھی، تحریک عدم اعتماد ووٹنگ کے بغیر ختم نہیں کی جاسکتی، آرٹیکل 95 کے تحت ووٹنگ کا عمل ضروری تھا۔

دلائل جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں نے اس سلسلے میں آئین کے آرٹیکلز 6 کا حوالہ دیا ہے، تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے لیے جاری کردہ نوٹس کے بعد ووٹنگ ضروری ہے، ووٹنگ آئینی کمانڈ ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ تحریک عدم اعتماد کے خلاف بیانیے کے لیے خط کا سہارا لیا گیا اور بیرونی سازش کو وجہ بنایا گیا، جان بوجھ کر تحریک عدم اعتماد کے خلاف بیانیہ بنایا گیا۔

رضا ربانی نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد کے لیے قومی اسمبلی کا اجلاس پہلے ہی تاخیر سے بلایا گیا تھا اور 25 مارچ کو اجلاس بلا کر محض دعا کے بعد ملتوی کردیا جبکہ ماضی میں ایسا نہیں ہوا تھا۔

انہوں نے کہا کہ اجلاس کو کسی بحث کے بغیر 3 اپریل تک ملتوی کیا گیا، 3 اپریل کو ووٹنگ ہونا تھی تو فواد چوہدری اسمبلی میں پوائنٹ آف آرڈر پر خط اور بیرونی سازش لے آئے جبکہ یہ جزو اجلاس کے ایجنڈے پر موجود ہی نہیں تھا۔

رضا ربانی نے کہا کہ 28 مارچ کو تحریک عدم اعتماد کی منظوری ہوئی مگر اجلاس ملتوی کردیا گیا۔

انہوں نے عدالت کو بتایا کہ ڈپٹی اسپیکر نے رولنگ پڑھی اور تمام ارکان کو آرٹیکل 5 کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دیا، ڈپٹی اسپیکر نے یہ بھی اعلان نہیں کیا تھا کہ تفصیلی رولنگ جاری کریں گے، ڈپٹی اسپیکر نے کس بنیاد پر رولنگ دی کچھ نہیں بتایا گیا۔

انہوں نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر کے سامنے عدالتی حکم تھا نہ ہی سازش کی کوئی انکوائری رپورٹ، ڈپٹی اسپیکر نے تحریری رولنگ دیکر اپنی زبانی رولنگ کو غیر مؤثر کر دیا، ان کی رولنگ آئین کے خلاف ہے۔

رضا ربانی کا مزید کہنا تھا کہ بغیر کسی ثبوت اور شواہد کے ڈپٹی اسپیکر کا اپوزیشن اراکین کو غدار قرار دینا غلط تھا، ڈپٹی اسپیکر نے آئین کے تحت کارروائی نہیں بڑھائی، اسپیکر کے خلاف بھی تحریک عدم اعتماد جمع ہوچکی تھی جس کے بعد اسپیکر کے اختیارات محدود ہوجاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر ماسوائے تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے علاوہ کوئی رولنگ نہیں دے سکتا تھا، اسپیکر کی رولنگ غیر قانونی تھی، اسپیکر تحریک عدم اعتماد پر کارروائی کا پابند تھا، اس کے علاوہ جو کچھ بھی کیا گیا وہ غیر قانونی تھا۔

رضا ربانی نے مزید کہا کہ آرٹیکل ووٹنگ کا وقت فراہم کرتا ہے، 3 سے 7 روز میں ووٹنگ کرانا ہوتی ہے البتہ وزیر اعظم مستعفی ہوجائے تو پھر تحریک عدم اعتماد غیر مؤثر ہوجاتی ہے، بصورت دیگر کوئی اور آپشن تھا ہی نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم اگر اکثریت کھو رہے ہیں تو انہیں اعتماد کا ووٹ لینا ہوتا ہے، آرٹیکل 95 کے تحت تحریک عدم اعتماد کی کارروائی ہوتی ہے، تحریک عدم اعتماد کے دوران اسمبلیوں کو تحلیل نہیں کیا جاسکتا، حتیٰ کہ ووٹنگ کا عمل مکمل کیے بغیر اسمبلی کا اجلاس بھی ختم نہیں کیا جا سکتا۔

رضا ربانی نے دلائل دیتے ہوئے سوال اٹھایا کہ کیا اسپیکر عدالتی فائنڈنگ کے بغیر رولنگ دے سکتے تھے، وزیر اعظم نے اپنے بیان میں 3 آپشنز کی بات کی، 3 آپشنز والی بات کی اسٹیبلشمنٹ نے تردید کی۔

رضا ربانی نے استدعا کی کہ عدالت اسپیکر کی رولنگ غیر آئینی قرار دے، قومی سلامتی کمیٹی کے منٹس اور خط منگوایا جائے، عدالت اسپیکر کی رولنگ کالعدم قرار دے کر اسمبلی کو بحال کرے۔

رضا ربانی کے بعد مسلم لیگ (ن) کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 95 کی ذیلی شق 1 کے تحت عدم اعتماد قرارداد جمع ہوئی جس پر 152 ارکان کے دستخط ہے اور 161 ارکان کی حمایت پر اسپیکر نے عدم اعتماد پیش کرنے کی اجازت دی۔

انہوں نے بتایا کہ عدم اعتماد پر مزید کارروائی 31 مارچ تک ملتوی کردی گئی، این اے رولز 37 کے تحت 31 مارچ کو عدم اعتماد پر بحث ہونی تھی لیکن بحث نہیں کرائی گئی, پھر 3 اپریل کو عدم اعتماد پر ووٹنگ ہونی تھی۔

اس موقع پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کوشش کریں کہ کیس جلدی مکمل کریں تاکہ کوئی فیصلہ دیا جاسکے۔

دلائل جاری رکھتے ہوئے مخدوم علی خان نے کہا کہ عدالت تحریک عدم اعتماد کی قرارداد کو دیکھے، تحریک وزیر اعظم کو ہٹانے کے لیے جمع کرائی گئی تھی جس میں یہ مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ وزیر اعظم اکثریت کھو چکے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ 31 مارچ کو التوا کیسے کیا گیا؟ اسپیکر کی جانب سے کوئی ہے؟ ہمیں اجلاس کی کارروائی کے نوٹس دیے جائیں، اسپیکر کا ریکارڈ پیش کیا جائے۔

مخدوم علی خان نے کہا کہ 3 اپریل کو اجلاس شروع ہوا، تلاوت کے بعد ڈپٹی اسپیکر نے کسی کو موقع نہیں دیا اور صرف فواد چوہدری کو بولنے کی اجازت دی، وزیر اعظم اکثریت کھو دیں تو یہ پارلیمانی جمہوریت کے خلاف ہے کہ وہ وزیر اعظم رہیں۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد پر کب کیا ہونا ہے یہ رولز میں ہے آئین میں نہیں، رولز بھی آئین کے تحت ہی بنائے گئے ہیں، ووٹنگ نہ ہونا آئین کی خلاف ورزی کیسے ہوگئی؟ آئین کے مطابق 7 روز میں عدم اعتماد پر ووٹنگ ضروری ہے، اگر کسی وجہ سے ووٹنگ آٹھویں دن ہو تو کیا غیر آئینی ہوگی؟

مسلم لیگ (ن) کے وکیل نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد جمع ہوجائے تو اسپیکر مسترد نہیں کر سکتا۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ عدم اعتماد کی تحریک جمع کیسے کروانی ہے طریقہ کار کے بارے میں آئین خاموش ہے۔

مسلم لیگ (ن) کے وکیل نے کہا کہ عدم اعتماد کے طریقہ کار کے بارے میں رولز موجود ہیں، عدم اعتماد کی تحریک جمع کرانے کی پہلی شرط 20 فیصد اراکین کی حمایت ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پر بحث ہوئی؟ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ اس تحریک پر بحث نہیں کرائی گئی۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے دوران اکثریت پارلیمان میں موجود تھی؟ تحریک عدم اعتماد جمع کرانے کے لیے 20 فیصد اراکین کی شرط آئین نے عائد کی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آئینی شق کو قواعد کے ذریعے روندا نہیں جا سکتا۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ اصل سوال یہ ہے کہ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ قانونی تھی یا غیر قانونی، اصل مقدمہ اسپیکر کی رولنگ کی آئینی حیثیت کو جانچنا ہے۔

وکیل نے دلیل دی کہ عدم اعتماد پر دی گئی رولنگ آئینی تقاضوں کے خلاف ہے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ نعیم بخاری اسپیکر کے وکیل ہیں، منٹس منگوا لیں۔

جسٹس جمال مندوخیل سے استفسار کیا کہ کیا عدم اعتماد کی تحریک میں غیر قانونی عوامل کو جانچا جاسکتا ہے۔

وکیل نے بتایا کہ سپریم کورٹ کو عدم اعتماد کی تحریک میں موجود غیر قانونی عوامل کو بھی جانچنے کا اختیار حاصل ہے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اختیارات کی تکون موجود ہے، چھوٹی موٹی خامیوں پر اسپیکر کے آئینی اختیارات کے خلاف کیسے رائے دے دیں؟ آپ چاہتے ہیں مقدمہ بازی کا نیا دروازہ کھل جائے، اگر ایسا ہوا تو پھر صوبائی اسمبلی کے خلاف ہائی کورٹ میں درخواستیں آنا شروع ہوجائیں گی۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا ڈپٹی اسپیکر، اسپیکر سے اجازت لیے بغیر اختیارات استعمال کر سکتا ہے؟ ڈپٹی اسپیکر کا اسپیکر کے اختیارات کو استعمال کرنا آئینی ہے یا غیر آئینی۔

مسلم لیگ (ن) کے وکیل نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر کا اسپیکر کی اجازت کے بغیر اختیارات استعمال کرنا غیر آئینی ہے، ڈپٹی اسپیکر نے رولنگ پڑھتے وقت اسپیکر کا نام بھی لیا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ خارجی پالیسی یا ریاستی پالیسی کا تعین نہیں کر سکتی، سپریم کورٹ نے صرف آئین و قانون کو دیکھنا ہے، ہم ریاستی پالیسی کی کھوج لگانے کا کام نہیں کر سکتے۔

مخدوم علی خان نے کہا کہ سپریم کورٹ سیکیورٹی اداروں کو بلا کر مکمل بریفنگ لے سکتی ہے، میں اپنی سیاسی جماعت کے قائدین کی طرف سے بات کہنا چاہتا ہوں سپریم کورٹ اگر چاہے تو عالمی سازش کے بارے میں انٹیلی جنس چیف سے ان کیمرا بریفنگ لے سکتی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم فی الحال آئین و قانون کو دیکھ رہے ہیں۔

مخدوم علی خان نے کہا کہ عدالت غیر قانونی اور غیر آئینی اقدام پر جوڈیشل نظرثانی کر سکتی ہے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی اپنے ایوان کے ماسٹرز ہیں، اختیارات کی تقسیم بھی آئینی کی گئی ہے۔

مخدوم علی خان نے کہا کہ عدالت کے سامنے 6 عدالتی فیصلوں کا حوالہ دیا ہے۔

عدالتی فیصلہ آرٹیکل 69 کے دائرہ اختیار کو واضح کرتا ہے، اسپیکر نے رولنگ کی تصدیق کی ہے، معلوم نہیں کہ اسپیکر نے اختیارات ڈپٹی اسپیکر کو منتقل کیے تھے یا نہیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ نعیم بخاری اس نقطے پر عدالت کی معاونت کریں گے، عدالت فی الحال صرف آئینی معاملات کو دیکھنا چاہتی ہے۔

وکیل مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ عدالت چاہے تو حساس اداروں سے بریفنگ لے سکتی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کی توجہ صرف ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ پر ہے، تمام فریقین کو کہیں گے کہ اس نقطے پر ہی توجہ مرکوز کریں، عدالت کی ترجیح ہے کہ صرف اس نقطے پر ہی فیصلہ ہو، صرف دیکھنا ہے کہ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کا عدالتی جائزہ لیا جا سکتا ہے یا نہیں۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ عدالت ریاستی اور خارجہ پالیسی کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتی، عدالت نے صرف اقدامات کی آئینی حیثیت کا جائزہ لینا ہے، عدالت پالیسی معاملات کی تحقیقات میں نہیں پڑنا چاہتی۔