سپریم کورٹ میں آرٹیکل 63 اے کی تشریح سےمتعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت کے دوران جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیےکہ کلچربن گیا ہےکہ فیصلہ آپ کےحق میں ہو تو انصاف کابول بالا، خلاف ہو تو انصاف داغدار۔
آرٹیکل 63 اے کی تشریح سےمتعلق صدارتی ریفرنس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے سماعت کی۔
دوران سماعت جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیےکہ ہمارے ہاں کلچربن گیا ہے کہ فیصلہ آپ کےحق میں ہو تو انصاف کابول بالا، خلاف ہو تو انصاف داغدار، ایک امریکی جج سے پوچھا گیا کہ عدالتی فیصلوں پرعمل نہ ہو تو آپ کے پاس توہین عدالت کا اختیارہے؟ امریکی جج نے بتایا امریکا میں سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عمل نہ کرنےکا تصور ہی نہیں، امریکا میں سپریم کورٹ کے فیصلوں پر اتنا اعتبار ہےکہ من وعن عمل کیاجاتاہے۔
پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا کہ ہمارے جو حالات ہیں ملک انارکی کی طرف بڑھ رہا ہے، کوئی آئین وقانون کوماننے کےلیےتیار ہی نہیں ہے۔
چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیےکہ سب کو ایک ہی زاویے میں دیکھنا درست نہیں ہے۔
فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا کہ ہم نے ہمیشہ سپریم کورٹ کے فیصلے تسلیم کیے، جب گیلانی صاحب کو فارغ کیا گیا تو ہم نے فیصلے کو تسلیم کیا۔
آرٹیکل 63 سے متعلق دلائل میں فاروق ایچ نائیک نےکہا کہ 1973 کے آئین میں آرٹیکل 96 پارٹی انحراف سے روکتا تھا، 1973 کے آئین میں منحرف رکن کا ووٹ شمار نہیں کیا جاسکتا تھا، فوجی آمر نے آئین میں آرٹیکل 62،63 کو شامل کیا۔
جسٹس مظہرعالم نے سوال کیا کہ کیا پالیسی معاملات میں اختلاف پربھی انحراف کی سزا ہوتی ہے؟ جس پر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ پالیسی معاملات میں انحراف کیا جاسکتا ہے، اسپیکرکے انتخاب میں بھی پارٹی پالیسی پرعمل کرنا ضروری نہیں۔
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ سترہویں ترمیم میں وزیراعظم اور پارٹی سربراہ کو بے پناہ اختیارات دیے گئے، وزیراعظم کے خلاف تو سپریم کورٹ بھی کارروائی نہیں کرسکتی تھی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ فرض کریں وزیراعظم کے خلاف چوتھے سال عدم اعتماد آتی ہے، منحرف ارکان کے خلاف ریفرنس الیکشن کمیشن جاتا ہے، الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ سے ایک سال فیصلے ہونے میں لگتا ہے، فیصلے تک اسمبلی مدت پوری کرجائے تو منحرف رکن کےخلاف کوئی کارروائی نہیں ہوگی؟
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ الیکشن کمیشن نااہلی ریفرنس پر مقررہ مدت تک فیصلے کا پابند ہے، جس پر جسٹس جمال خان مندوخیل نےکہا کہ سپریم کورٹ بھی مقررہ مدت تک فیصلے کی پابند ہے، جہاں بھی اختیارحد سے زیادہ ہوگا وہاں استعمال غلط ہوگا۔
سپریم کورٹ نے آرٹیکل63 اے کے صدارتی ریفرنس کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔