اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس میاں گل حسن نے توشہ خانہ کیس میں ریمارکس دیے کہ جو بھی تحفہ دیا جاتا ہے وہ اس آفس کا ہوتا ہے،گھرلے جانے کے لیے نہیں، جو لوگ تحائف اپنے گھر لے گئے ہیں، ان سے بھی واپس لیں۔
انفارمیشن کمیشن نے وزیراعظم کو توشہ خانہ سے ملنے والے تحائف کی تفصیلات شہری کو دینے کاحکم دیا تھا اورکابینہ ڈویژن نےانفارمیشن کمیشن کے فیصلےکےخلاف درخواست دائرکررکھی ہے۔
کابینہ ڈویژن کا مؤقف ہےکہ سربراہان مملکت کے درمیان تحائف کا تبادلہ بین الریاستی تعلقات کاعکاس ہوتا ہے لہٰذا تحائف کی تفصیل بتانے سے ان ممالک کے ساتھ تعلقات متاثرہوسکتے ہیں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے سابق وزیراعظم کےتوشہ خانہ سے حاصل تحائف کی تفصیل بتانے کے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی جس سلسلے میں وفاق کی جانب سے ڈپٹی اٹارنی جنرل ارشد کیانی عدالت میں پیش ہوئے اور ہدایت لینے کے لیے مہلت طلب کی۔
دورانِ سماعت رانا عابد ایڈووکیٹ نے کہا کہ پٹیشن میں کہا گیا ہےکہ تحائف کی معلومات شیئر کیں تو دیگر ممالک سے تعلقات متاثر ہوں گے، اب جب تحائف کی فروخت کا معاملہ سامنے آیا ہے تو کیا عزت رہ جائے گی؟
رانا عابد کے مؤقف پر عدالت نے عمران خان کو ملنے والے تحائف کی تفصیل فراہم کرنے کی ہدایت کردی۔
عدالت نے کہا کہ پاکستان انفارمیشن کمیشن کے آرڈر پر حکم امتناع نہیں،کابینہ ڈویژن معلومات فراہم کرنےکا پابند ہے۔
اس موقع پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیےکہ لوگ آتے اور چلے جاتے ہیں، وزیراعظم آفس وہیں رہتا ہے، جو بھی تحفہ دیا جاتا ہے وہ اس آفس کا ہوتا ہے،گھرلے جانے کے لیے نہیں، جو لوگ تحائف اپنے گھر لے گئے ہیں، ان سے بھی واپس لیں۔
معزز جج نے کہا کہ ایک حد تک پیسےدےکر تحفہ رکھ لیناکوئی بات نہیں ہے، ایک پالیسی بنائیں کہ جو تحفہ آئیگا وہ صرف خزانے میں جمع ہوگا، تحائف صرف ملتے ہی نہیں، عوام کے ٹیکس سے بیرون ممالک سربراہان کوبھی بھجوائےجاتےہیں، باہر سے آئے سب تحائف عوامی جگہ پر رکھنے چاہئیں۔
عدالت نے کہا کہ یہ پالیسی ہونی ہی نہیں چاہیے تھی کہ کچھ فیصد رقم دے کر تحفہ گھر لے جائیں، ایسی پالیسی بنانے کا مطلب تو یہ ہوا کہ تحفوں کی سیل لگا رکھی ہے۔
عدالت نے ڈپٹی اٹارنی جنرل کو ہدایت دی کہ آپ ہدایات لیں لیکن تب تک انفارمیشن کمیشن کے حکم پر عمل کریں، انفارمیشن کمیشن نے تحائف کی معلومات شہری کو دینےکاکہا تو فراہم کریں۔