بنگلہ دیش کے شہر چٹاگانگ کے قریب ایک شپنگ کنٹینرز ڈپو میں گزشتہ شب لگنے والی آگ کے سبب زوردار کیمکل دھماکے سے کم از کم 38 افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہو گئے۔
عالمی خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ہے کیونکہ 300 سے زائد افراد زخمی ہیں جن کی حالت تشویشناک ہے۔
ربڑ کی عام چپلیں پہنے رضاکار ملبے اور دھوئیں کے بیچ لاشیں نکال کر لائے، جنہوں نے بتایا کہ وہاں اور بھی لاشیں موجود ہیں۔
آگ گزشتہ شب سیتا کنڈا کے ایک بڑے ڈپو میں لگی جہاں تقریباً 4 ہزار کنٹینرز رکھے گئے تھے، جن میں سے اکثر مغربی خوردہ فروشوں کے لیے تیار کردہ کپڑوں سے بھرے ہوئے تھے، جو چٹاگانگ کی بڑی جنوبی بندرگاہ سے تقریباً 40 کلومیٹر (25 میل) دور واقع ہے۔
آگ لگنے کے سبب کیمیکل سے بھرے کنٹینرز پھٹ گئے جس نے وہاں موجود آگ بجھانے والوں، صحافیوں اور دیگر افراد کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، لوگوں اور ملبے کو ہوا کے ذریعے نقصان پہنچایا اور کئی کلومیٹر دور موجود عمارتوں میں بھی ہلچل مچا دی۔
بی ایم کنٹینر ڈپو کے ڈائریکٹر مجیب الرحمان نے کہا کہ آگ لگنے کی وجہ تاحال معلوم نہیں ہو سکی۔
فائر سروس کے سربراہ بریگیڈیئر جنرل معین الدین نے صحافیوں کو بتایا کہ کنٹینر ڈپو میں ہائیڈروجن پیرو آکسائیڈ موجود تھی، انہوں نے کہا کہ اس کیمیکل کی موجودگی کی وجہ سے ہم اب تک آگ پر قابو نہیں پا سکے۔
ریجنل چیف ڈاکٹر الیاس چودھری نے بتایا کہ یہاں صحافیوں سمیت کئی لوگ فیس بک لائیو پر رپورٹ کررہے تھے ان کا اب تک پتہ نہیں لگایا جاسکا ہے۔
ایک رضاکار نے صحافیوں کو بتایا ’آگ سے متاثرہ جگہوں میں اب بھی کچھ لاشیں موجود ہیں، میں نے 8 یا 10 لاشیں دیکھی ہیں‘۔
طفیل احمد نے بتایا ’دھماکے کے سبب میں وہاں سے تقریباً 10 میٹر دور جاگرا، میرے ہاتھ اور ٹانگیں جھلس گئیں‘۔
پولیس اہلکار محمد علاؤالدین نے بتایا کہ مرنے والوں کی تعداد بڑھ کر 38 ہو گئی ہے، فائر فائٹرز نے آگ بجھانے کا سلسلہ جاری رکھا اور مریضوں سے بھرے ہسپتالوں میں ڈاکٹر زخمیوں کا علاج کر رہے ہیں۔
جائے وقوع کے قریب گروسری کی دکان کے مالک 60 سالہ محمد علی نے بتایا کہ دھماکے کی آواز کان پھاڑ دینے والی تھی۔
انہوں نے بتایا کہ جب دھماکہ ہوا تو ایک سلنڈر آگ کی جگہ سے تقریباً نصف کلومیٹر کے فاصلے پر ہمارے چھوٹے تالاب کی جانب اڑ گیا۔
انہوں نے کہا کہ دھماکے کے سبب آگ کے گولے آسمان کی جانب اٹھ رہے تھے اور بارش کی طرح زمین پر گر رہے تھے، ہم بہت خوفزدہ تھے کہ ہم نے پناہ تلاش کرنے کے لیے فوراً اپنا گھر چھوڑ دیا، ہم نے سوچا کہ آگ ہمارے علاقے تک پھیل جائے گی کیونکہ یہ بہت گنجان آباد ہے۔
چٹاگانگ کے چیف ڈاکٹر الیاس چودھری نے کہا کہ زخمیوں کو مختلف ہسپتالوں میں لے جایا گیا ہے جبکہ ڈاکٹروں کو چھٹیوں سے واپس بلا لیا گیا ہے۔
دوسسری جانب متاثرین کے لیے خون کی عطیات کی درخواستوں سے سوشل میڈیا بھر گیا۔
فوج نے کہا کہ سمندر میں بہنے والے کیمیکل کو روکنے کے لیے ریت کے تھیلوں کے ساتھ 250 فوجی تعینات کردیے گئے ہیں۔
چٹاگانگ ضلع کے چیف ایڈمنسٹریٹر مومن الرحمٰن نے کہا کہ آگ پر کافی حد تک قابو پالیا گیا ہے، لیکن اب بھی کئی جگہ آگ لگی ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ فائر فائٹرز آگ پر قابو پانے کی کوشش کر رہے ہیں، ڈپو کے اندر آگ کم از کم 7 ایکڑ اراضی تک پھیل گئی۔
بنگلہ دیش میں حفاظتی اصولوں کے نفاذ میں کوتاہی کی وجہ سے آگ لگنا عام ہے۔
ایچ اینڈ ایم، والمارٹ اور دیگر کمپنوں کے کپڑوں سمیت بنگلہ دیش کی تقریباً ایک کھرب ڈالر کی تجارت کا تقریباً 90 فیصد چٹاگانگ بندرگاہ سے گزرتا ہے۔
گزشتہ سال کے آخر سے برآمدات میں اضافہ ہورہا ہے کیونکہ عالمی معیشت کورونا وبا کے اثرات سے نکل رہی ہے، سال کے پہلے 5 ماہ میں ترسیلات میں 40 فیصد سے زائد اضافہ ہوا۔