چین کے سفیر نے افغانستان کے لیے تجارتی اور سرمایہ کاری کے منصوبوں کا اعلان کیا ہے، طالبان کی حکومت میں کاروبار کرنے کے لیے یہ عوامی طور پر توثیق ہے، افغانستان پر زلزلے کے بعد توجہ مرکوز ہوئی کیونکہ مغربی پابندیوں سے یہاں انسانی المیے جنم لینے کا خدشہ ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق طالبان انتظامیہ کے قائم مقام وزیر برائے ڈیزاسٹر منیجمنٹ کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے چینی سفارت کار وینگ یو نے 80 لاکھ ڈالر امداد کا اعلان کیا، یہ رقم 22 جون کو زلزلے کے ریلیف کے لیے دی جا رہی ہے، جس میں ایک ہزار سے زائد لوگ جاں بحق ہوئے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ انسانیت کے لیے ہنگامی امداد کے علاوہ، گزشتہ سال سیاسی تبدیلی اور زلزلے کے بعد ہمارے پاس اقتصادی تعمیر نو کے طویل المدت منصوبے ہیں، جس میں تجارت کو ترجیح دی جائے گی، جس کے بعد سرمایہ کاری اور زراعت پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔
طالبان حکومت کو اب تک کسی ملک نے باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا ہے، جس نے پچھلے سال اقتدار پر قبضہ کیا کیونکہ امریکا اور اس کے اتحادیوں نے 20 سالہ جنگ لڑنے کے بعد اچانک اپنی افواج کا انخلا کیا تھا۔
مغربی ممالک کا کہنا تھا کہ افغانستان پر اسی صورت میں پابندیوں کو ہٹایا جا سکتا ہے، جب یہ گروپ شرائط کو پورا کرے جن میں خواتین اور لڑکیوں کو حقوق دینا شامل ہے کہ وہ اپنے مطابق زندگی بسر کرسکیں، مغربی ممالک کی جانب سے افغانستان پر پابندیوں میں غیر ملکی اربوں ڈالر کے ذخائر کو منجمد کرنا بھی شامل ہے۔
چین کی ہمسایہ ملک افغانستان کے ساتھ طویل سرحد ہے، وہ اپنے بڑے منصوبے ‘بیلٹ اینڈ روڈ’ پر سرمایہ کاری کے حوالے سے ہمسایہ ممالک میں اثر و رسوخ رکھتا ہے جس نے افغانستان پر پابندیاں ہٹانے کا مسلسل مطالبہ کیا ہے۔