برطانیہ میں سیاسی بحران کے شدت اختیار کرنے کے بعد وزیراعظم بورس جانسن آج متوقع طور پر اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیں گے اور وہ ملک کے لیے اس حوالے سے بیان بھی جاری کریں گے۔
خبر رساں ایجنسی کے مطابق بی بی سی کے پولیٹیکل ایڈیٹر کرس میسن نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کہا کہ بورس جانسن کنزرویٹو پارٹی کے سربراہ کے عہدے سے بھی استعفیٰ دے دیں گے۔
واضح رہے کہ گزشتہ چند دنوں سے اہم وزرا کی جانب سے استعفوں اور عوام اور اپوزیشن کے مطالبے کے باوجود بورس جانسن نے ابھی تک عہدے سے استعفیٰ نہیں دیا۔
وزیراعظم ہاؤس کے ترجمان نے کہا کہ وزیراعظم بورس جانسن آج قوم کے نام ایک بیان جاری کریں گے۔
سیکریٹری دفاع بین ویلس نے بھی بورس جانسن سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا لیکن ساتھ ساتھ اس بات کے عزم کا بھی اعادہ کیا کہ وہ اپنے عہدے پر فائض رہیں گے تاکہ وہ ملکی سیکیورٹی برقرار رکھ سکیں۔
’دی سن‘ کے پولیٹیکل ایڈیٹر ہیری کول نے کہا کہ بورس جانسن نئے سربراہ مملکت کے انتخاب تک وزیراعظم کے منصب پر فائض رہنا چاہتے تھے جہاں نئے سربراہ کے انتخاب کے عمل میں دو ماہ کا عرصہ لگتا ہے۔
گزشتہ دو گھنٹے کے دوران دو سیکریٹری اسٹیٹ سمیت آٹھ وزرا کے استعفوں کے بعد اختیارات سے محروم جانسن کے لیے استعفیٰ دینا ناگزیر ہو گیا ہے اور وہ جلد اس حوالے سے اعلان کریں گے۔
کئی ماہ سے مختلف اسکینڈلز سے نبرد آزما برطانوی وزیراعظم اب تنہا رہ گئے ہیں اور اب ان کے اتحادی بھی ان کا ساتھ چھوڑ گئے ہیں اور ان کا ساتھ دینے سے گریزاں ہیں۔
کنزرویٹو پارٹی کے ڈپٹی چیئرمین جسٹن ٹاملنسن نے ٹوئٹر پر کہا کہ ان کا استعفیٰ ناگزیر تھا، ایک پارٹی کے طور پر ہمیں فوری طور پر متحد ہونا چاہیے اور ان چیزوں پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے جو اہم ہیں، یہ بہت سے محاذوں پر سنجیدہ وقت ہے۔
کنزرویٹو پارٹی کو اب نئے لیڈر کا انتخاب کرنا ہوگا اور اس عمل میں تقریباً دو ماہ لگ سکتے ہیں۔
حالیہ برطانوی سیاسی تاریخ کے سب سے ہنگامہ خیز 24 گھنٹوں میں سے اور بورس جانسن کی حمایت تیزی سے ختم ہوتے ہوئے منگل کو وزیر خزانہ کا منصب سنبھالنے والے ندیم زہاوی نے اپنے باس سے استعفیٰ دینے کا مطالبہ کردیا ہے۔
انہوں نے ٹویٹر پر کہا کہ یہ معاملہ زیادہ عرصے تک برقرار نہیں رہے گا اور وقت کے ساتھ مزید خراب ہو جائے گا، آپ کے لیے کنزرویٹو پارٹی کے لیے اور سب سے بڑھ کر ملک کے لیے آپ کو درست قدم اٹھانا چاہیے اور ابھی جانا چاہیے۔
وزیر دفاع بین والیس سمیت عہدے پر رہنے والوں میں سے کچھ نے کہا کہ وہ ایسا صرف اس لیے کر رہے ہیں کہ ملک کو محفوظ رکھنا ان کی ذمہ داری ہے۔
اتنی بڑی تعداد میں وزرا کے استعفے آنے کے بعد حکومتی امور مفلوج ہو چکے ہیں۔