شام میں دمشق کے ساحل کے قریب پڑوسی ملک لبنان سے آنے والی کشتی ڈوبنے سے کم از کم 34 تارکین وطن ہلاک ہو گئے۔رپورٹ کے مطابق لبنان شام میں خانہ جنگی کے سبب 10لاکھ سے زائد افراد کی میزبانی کرنے والا ملک لبنان گزشتہ تین سالوں سے اقتصادی بحران کا شکار ہے اور اسی وجہ سے وہاں سے خفیہ راستوں کے ذریعے یورپی یونین تک پہنچنے کی کوششوں میں اضافہ ہوا ہے۔
شام کی وزارت صحت نے ایک بیان میں کہا کہ مردہ پائے جانے والے افراد کی تعداد 34 ہے اور طرطوس کے ایک ہسپتال میں زندہ بچ جانے والے 20 افراد کا علاج کیا جا رہا ہے۔طرطوس شام کی مرکزی بندرگاہوں میں جنوب میں واقع ہے اور یہ شمالی لبنان کے بندرگاہی شہر طرابلس سے تقریباً 50 کلومیٹر شمال میں واقع ہے۔
شامی بندرگاہوں کے سربراہ سمر کبرسلی نے وزارت ٹرانسپورٹ کی طرف سے جاری کردہ ایک ابتدائی بیان میں کہا کہ زندہ بچ جانے والوں کے مطابق ان کی کشتی کچھ دن پہلے لبنان سے روانہ ہوئی تھی۔انہوں نے کہا کہ مقامی ماہی گیر کشتی کی بازیابی کے لیے جاری کوششوں کی حمایت کر رہے تھے۔
شام کی وزارت ٹرانسپورٹ کی طرف سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ زندہ بچ جانے والوں سے حاصل کی گئی معلومات سے پتہ چلتا ہے کہ کشتی طرابلس کے بالکل شمال میں واقع قصبے منیہ سے روانہ ہوئی تھی۔لبنان میں پچھلے سال کے دوران ایسے تارکین وطن کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے جو گنجائش سے زیادہ مسافروں سے بھری کشتی میں جان کو خطرے میں ڈال کر یورپ پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اپریل میں طرابلس کے شمالی ساحل پر مہاجرین کی ایک کشتی کے ڈوبنے سے چھ افراد ہلاک ہو گئے تھے جہاں یہ الزام عائد کیا گیا تھا کہ لبنانی بحریہ اس کشتی کا تعاقب کر رہی تھی۔اس واقعے کے حالات مکمل طور پر واضح نہیں تھے، جہاز میں موجود کچھ لوگوں نے دعویٰ کیا کہ بحریہ نے ان کی کشتی کو ٹکر مار دی جبکہ حکام نے اصرار کیا کہ اسمگلروں نے لاپرواہی سے فرار ہونے کی کوشش کی، بیروت میں حکومت نے اس واقعے کی تحقیقات کا حکم دیا تھا۔
13 ستمبر کو ترکی کے ساحلی محافظ نے دو بچوں سمیت چھ تارکین وطن کی موت کا اعلان کیا تھا البتہ جنوب مغربی صوبے موگلا کے ساحل سے یورپ پہنچنے کی کوشش کرنے والے 73 افراد کو بچا لیا تھا۔اطلاعات کے مطابق وہ لبنان کے شہر طرابلس سے اٹلی پہنچنے کی کوشش میں سوار ہوئے تھے۔
زیادہ تر کشتیاں لبنان سے یورپی یونین کے رکن قبرص کے لیے روانہ ہو رہی ہیں، جو 175 کلومیٹر دور ایک جزیرہ ہے۔لبنان سے روانہ ہونے والوں میں اکثر شامی ہیں لیکن مسلسل بگڑتے معاشی بحران نے بڑی تعداد میں لبنانی عوام کو بھی سرحد عبور کرنے کی کوشش کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔