جنوبی کوریا اور امریکی افواج کی مشترکہ فوجی مشقوں اور امریکی نائب صدر کمالا ہیرس کے دورے سے قبل شمالی کوریا نے اپنے مشرقی ساحل سے سمندر کی جانب ایک بیلسٹک میزائل داغا ہے۔
رپورٹ کے مطابق جنوبی کوریا کی فوج نے کہا کہ یہ ایک مختصر فاصلے تک مار کرنے والا بیلسٹک میزائل تھا جو شمالی پیونگیان صوبے کے علاقے تائیچون کے قریب مقامی وقت کے مطابق صبح 7 بجے سے قبل داغا گیا، اس نے 60 کلومیٹر کی بلندی پر تقریباً 600 کلومیٹر (373 میل) دور تک پرواز کی۔
جنوبی کوریا کے جوائنٹ چیفس آف اسٹاف نے ایک بیان میں کہا کہ ’شمالی کوریا کا بیلسٹک میزائل کا تجربہ ایک سنگین اشتعال انگیزی ہے جس سے جنوبی کوریا اور عالمی برادری کے امن و سلامتی کو خطرہ ہے‘۔
جنوبی کوریا کی قومی سلامتی کونسل نے واقعے کے ردعمل میں ممکنہ اقدامات پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے ایک ہنگامی اجلاس منعقد کیا۔
جنوبی کوریا کی قومی سلامتی کونسل نے اس واقعے کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی صریح خلاف ورزی اور اشتعال انگیزی کا ایک غیر منصفانہ عمل قرار دیتے ہوئے شدید مذمت کی۔
جاپان کے وزیر دفاع یاسوکازو حمادا نے کہا کہ اندازاً یہ میزائل 50 کلومیٹر اونچائی تک پہنچا، یہ جاپان کے خصوصی اقتصادی زون سے باہر گرا ہے اور جہاز رانی یا ایئر ٹریفک میں مسائل کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ حالیہ برسوں میں شمالی کوریا کی طرف سے تجربہ کیے گئے بہت سے کم فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کو پرواز کے دوران میزائل ڈیفنس سے بچنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔
یاسوکازو حمادا نے کہا کہ ’ اگر حالیہ برسوں میں شمالی کوریا کی جانب سے ایسے میزائلوں کے تجربات میں کروز میزائلوں کے تجربات کو بھی شمار کیا جائے تو یہ انیسواں تجربہ ہے جو کہ ایک غیرمعمولی تعداد ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ شمالی کوریا کی یہ کارروائی ہمارے ملک، خطے اور عالمی برادری کے امن و سلامتی کے لیے خطرہ ہے اور یوکرین کے حملے کے بعد ایسا کرنا ناقابل معافی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ جاپان نے بیجنگ میں شمالی کوریا کے سفارت خانے کے ذریعے اپنا احتجاج ریکارڈ کرا دیا ہے۔