اوپیک تنظیم کی جانب سے رواں ہفتے امریکی مخالفت کے باوجود تیل کی پیداوار میں کمی کے فیصلے کے بعد صدر جو بائیڈن اور ماضی کے واشنگٹن کے مشرق وسطیٰ میں سب سے اہم اتحادیوں میں سے ایک سعودی عرب کے شاہی خاندان کے درمیان پہلے سے ہی کشیدہ تعلقات میں مزید تناؤ پیدا ہوگیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق واشنگٹن اور خلیج ممالک میں امریکا اور سعودی عرب کے تعلقات پر نظر رکھنے والے سرکاری عہدیداروں اور ماہرین نے بتایا کہ وائٹ ہاؤس نے اوپیک ممالک پر پیداوار میں کمی کے فیصلے کو روکنے کے لیے بہت دباؤ دیا۔
جو بائیڈن وسط مدتی انتخابات جن میں ان کی ڈیموکریٹک پارٹی کو امریکی کانگریس پر کنٹرول برقرار رکھنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے سے قبل امریکی پیٹرول کی قیمتوں کو دوبارہ بڑھنے سے روکنا چاہتے ہیں، اس کے ساتھ ہی واشنگٹن یوکرین جنگ کے دوران روس کی توانائی کی آمدنی کو بھی کم سے کم کرنا چاہتا ہے۔
معاملے اور پیش رفت سے آگاہ حکام میں سے دو عہدیداروں نے بتایا کہ حالیہ دنوں میں امریکی انتظامیہ نے ہفتوں تک اوپیک ممالک کے ساتھ لابنگ کی، توانائی، خارجہ پالیسی اور معاشی ٹیموں کے سینئر امریکی حکام نے اپنے غیر ملکی ہم منصبوں پر زور دیا کہ وہ پیداوار میں کمی کے فیصلے کے خلاف ووٹ دیں۔
جو بائیڈن کے توانائی کے نمائندے اموس ہوچسٹین، قومی سلامتی کے لیے اہم عہدیدار بریٹ میک گرک اور یمن کے لیے نمائندہ خصوصی ٹم لینڈرکنگ نے اوپیک میں شامل ممالک کے فیصلے سمیت توانائی کے دیگر مسائل پر بات کرنے کے لیے گزشتہ ماہ سعودی عرب کا دورہ کیا تھا۔
یہ اعلیٰ عہدیدار اوپیک کی جانب سے پیداوار میں کمی کے فیصلے کو روکنے میں ناکام رہے۔
ذرائع نے بتایا کہ امریکی حکام نے اس معاملے کو روس کے خلاف جنگ کے اقدام کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی اور سعودی حکام کو کہا کہ انہیں امریکی اتحاد یا روس میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے کی ضرورت ہے۔
ذرائع بتایا کہ مذاکرات کے دوران امریکی دلیل ناکام ہوگئی جب کہ سعودی حکام نے کہا کہ اگر امریکا مارکیٹ میں مزید تیل چاہتا ہے تو اسے خود زیادہ پیداوار شروع کرنی چاہیے۔
یو ایس انرجی انفارمیشن ایڈمنسٹریشن کے اعداد و شمار کے مطابق امریکا دنیا کا نمبر ون تیل پیدا کرنے والا اور استعمال کرنے والا ملک ہے۔
سعودی حکومت کے میڈیا آفس سی آئی سی نے معاملے پر رد عمل جاننے کے لیے بھیجے گئے پیغامات کا جواب نہیں دیا۔
وزیر توانائی شہزادہ عبدالعزیز نے بدھ کے وروز سعودی ٹی وی کو بتایا تھا کہ “ہمیں سب سے پہلے سعودی عرب کے مفادات اور پھر ان ممالک کے مفادات کی فکر ہے جنہوں نے ہم پر بھروسہ کیا اور جو اوپیک کے رکن اور اوپیک پلس اتحاد کے رکن ہیں۔
انہوں نے کہا تھا کہ اوپیک اپنے مفادات کا دنیا کے لوگوں کے مفادات کے نتاظر میں جائزہ لیتا ہے جب کہ ہم عالمی معیشت کی ترقی میں تعاون کرنے اور بہترین طریقے سے توانائی کی فراہمی کی خواپش رکھتے ہیں۔