صومالیہ کے دارالحکومت موغادیشو میں وزارت تعلیم کے باہر 2 کار بم دھماکوں کے نتیجے میں 100 افراد جاں بحق جبکہ 300 سے زائد زخمی ہوگئے۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’رائٹرز‘ کے مطابق صومالیہ کے صدر حسن شیخ محمود نے جائے وقوع کا دورہ کرتے ہوئے اپنے بیان میں کہا کہ ’ہمارے جن لوگوں کا قتل عام کیا گیا ان میں وہ مائیں بھی شامل تھیں جنہوں نے اپنے بچوں کو ہاتھوں میں اٹھا رکھا تھا، وہ والدین بھی شامل تھے جن کی طبی حالت خراب تھی، وہ طالب علم بھی شامل تھے جنہیں تعلیم کے لیے بھیجا گیا تھا اور وہ تاجر بھی تھے جو اپنے خاندانوں کی زندگیوں سے نبرد آزما تھے۔حسن شیخ محمود نے کہا کہ ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ ہوسکتا ہے۔
صومالیہ میں ہونے والے اس خوفناک بم دھماکوں کی ذمہ داری تاحال کسی گروہ نے قبول نہیں کی لیکن صدر نے اس کا الزام مذہبی شدت پسند گروہ ’الشباب‘ پر عائد کیا ہے، تاہم یہ گروپ ایسی کارروائیوں کی ذمہ داری قبول کرنے سے گریز کرتا ہے جن میں بڑے پیمانے پر ہلاکتیں ہوتی ہیں۔
دارالحکومت موغادیشو میں ہونے والے پہلے دھماکے میں مصروف ترین جنکشن کے قریب وزارت تعلیم کو نشانہ بنایا گیا، جبکہ دوسرا دھماکا اس وقت ہوا جب پہلے دھماکے میں زخمی اور ہلاک افراد کو ہسپتال منتقل کرنے کے لیے ایمبولنس اور دیگر شہری وہاں جمع ہوئے۔
دھماکوں کی شدت سے قریبی عمارتوں کی کھڑکیاں بھی ٹوٹ گئیں جبکہ ہلاکتوں اور زخمیوں کی تعداد بڑھنے سے عمارت کے باہر خون جمع ہوگیا۔
واضح رہے کہ اس سے قبل 3 اکتوبر کو صومالیہ میں 2 کار بم دھماکوں میں حکومتی وزیر اور ایک کمشنر سمیت 9 افراد ہلاک ہوگئے تھے اور شدت پسند گروپ ’الشباب‘ نے حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
دھماکا خیز مواد دو کاروں میں نصب تھا، دونوں دھماکے حکومتی دفاتر سے چند قدم کے فاصلے پر کیے گئے تھے۔
خیال رہے کہ صومالیہ میں اسی مقام پر 2017 میں بھی اس طرح کا واقعہ پیش آیا تھا جس کے نتیجے میں 500 سے زائد افراد جاں بحق ہوئے تھے، جہاں بارودی مواد سے بھرا ٹرک اسی علاقے میں ایک مصروف ترین ہوٹل کے سامنے دھماکے سے اڑایا گیا تھا، ہوٹل سرکاری دفاتر اور ریسٹورنٹس کے ساتھ ہی قائم تھا۔