بھارت اور امریکا نے آئندہ چند برسوں کے دوران دفاعی صنعت میں تعاون کے لئے ایک روڈ میپ پر اتفاق کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق دونوں ممالک کی جانب جاری اعلان ایک تاریخی اقدام ہے جس سے بھارت کے ڈیفنس مینوفیکچرنگ کے عزائم کو تقویت ملے گی۔امریکا، بھارت کے ساتھ تعلقات کو مزید مضبوط کرنے کے لیے کام کر رہا ہے، واشنگٹن دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک کے ساتھ مضبوط تر فوجی اور ٹیکنالوجی تعلقات کو خطے میں چین کے بڑھتے اثر ورسوخ کو روکنے کے لیے اہم جوابی اقدام کے طور پر دیکھتا ہے۔
اس کے علاوہ یہ اقدام بھارت کو دفاعی ساز و سامان کے لیے روس پر اپنے روایتی انحصار سے بھی چھٹکارا دلانے میں اہم کردار ادا کرے گا۔اس روڈ میپ کو بھارت کے دورے پر آئے امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن اور بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کے درمیان ملاقات میں حتمی شکل دی گئی۔یہ معاہدہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے 22 جون کو ہونے سرکاری دورہ واشنگٹن اور صدر جو بائیڈن سے بات چیت کرنے سے چند ہفتے قبل کیا گیا ہے۔
اس روڈ میپ کواس لیے بھی اہم سمجھا جاتا ہے کیونکہ واشنگٹن اس بات پر سخت کنٹرول رکھتا ہے کہ کس ملکی فوجی ٹیکنالوجی کو دوسرے ممالک کے ساتھ شیئر کیا جا سکتا ہے یا اسے بیچا جا سکتا ہے۔ٹیکنالوجی تعاون نئی دہلی میں موجود امریکی سفارت خانے نے ایک بیان میں کہا کہ اس اقدام کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان دفاعی شعبے میں تعاون کے نظریے کو تبدیل کرنا ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ یہ روڈ میپ فضائی جنگ، زمینی نقل و حرکت کے نظام، انٹیلی جنس، نگرانی، جاسوسی، جنگی سازوسامان اور زیر سمندر ڈومین جیسے شعبوں میں تیز رفتار ٹیکنالوجی تعاون اور مشترکہ پیداوار کرے گا۔اس روڈ میپ میں خاص تجاویز شامل ہیں جو بھارت کو جدید ٹیکنالوجی تک رسائی فراہم کر سکتی ہیں، بیان میں کہا گیا کہ امریکی اور بھارتی وزیر دفاع نے صنعت سے صنعت مربوط تعاون میں حائل ہونے والی ریگولیٹری رکاوٹوں کا جائزہ لینے کا بھی وعدہ کیا۔
بھارت، دنیا کا سب سے بڑا اسلحہ درآمد کرنے والا ملک ہے جو اپنی تقریباً نصف فوجی سپلائی کے لیے روس پر انحصار کرتا ہے لیکن اس نے امریکا، فرانس اور اسرائیل سمیت دیگر ممالک سے اپنے ذرائع خریداری میں تیزی سے تنوع پیدا کیا ہے۔امریکی وزیر دفاع نے صحافیوں کو بتایا کہ امریکا اور بھارت کی دفاعی شراکت داری اہم ہے کیونکہ ہمیں تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا کا سامنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم عوامی جمہوریہ چین کی جانب سے غنڈہ گردی اور جبر دیکھتے ہیں، یوکرین کے خلاف روسی جارحیت دیکھتے ہیں جو طاقت کے ذریعے سرحدوں کا دوبارہ تعین کرنا چاہتے ہیں اور قومی خودمختاری کے ساتھ ساتھ دہشت گردی اور ماحولیاتی تبدیلی جیسے عالمی چیلنجوں کو بھی خطرہ لاحق کردیتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ جمہوریتوں کو اب نہ صرف ہمارے اپنے مشترکہ مفادات بلکہ ہماری مشترکہ اقدار کے تحفظ کے لیے اکٹھے ہونا چاہیے۔