اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے کہا ہے کہ یونان میں تارکین وطن کی کشتی الٹنے کے بعد 500 سے زائد افراد تاحال لاپتہ ہے۔اقوام متحدہ کے ترجمان جیریمی لارینس کا کہنا ہے کہ افسوسناک واقعے میں 78 افراد ہلاک ہوئے جبکہ بچوں اور عورتوں سمیت 500 سے زائد افراد کی بڑی تعداد اب بھی لاپتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس واقعے کے بعد انسانی اسمگلرز کے خلاف کارروائیاں انتہائی اہمیت اختیار کر گئی ہیںدوسری جانب یونانی حکام نے کوسٹ گارڈز کی جانب سے تارکین وطن کی کشتی کو رسی سے باندھنے کے باعث کشتی ڈوبنے سے متعلق خبروں کی تردید کردی ہے۔
مختلف حلقوں کی جانب سے کہا جا رہا تھا کہ کوسٹ گارڈز کے اہلکاروں کی جانب سے کشتی کو رسی سے باندھنے کی گئی تھی جس کے باعث کشتی الٹنے کا واقعہ پیش آیا، جبکہ کشتی میں سوار دو مسافروں نے بھی اس حوالے سے بتایا تھا۔
ابتدائی طور پر کوسٹ گارڈز کی جانب سے کہا گیا تھا کہ اہلکاروں نے محفوظ فاصلہ قائم رکھتے ہوئے کچھ دیر کیلئے رسی پھینکی تھی تاہم وہ رسی کشتی کو روکنے کیلئے نہیں بلکہ اپنا بیلنس قائم رکھتے ہوئے تارکین وطن کی کشتی تک محفوظ طریقے سے پہنچنے کیلئے ڈالی گئی تھی تاکہ ان تک پہنچ کر معلوم کیا جاسکے کہ انہیں کسی مدد کی ضرورت تو نہیں ہے۔
یونانی حکام نے ایسی تمام خبروں کی تردید کر دی تھی کہ رسی کشتی کو روکنے کیلئے ڈالی گئی تھی تاہم کشتی پر سوار زندہ بچ جانے والے ایک تارک وطن نے بتایا تھا کہ کوسٹ گارڈز کے اہلکاروں کی جانب سے تارکین وطن کی کشتی کو بائیں جانب سے رسی باندھی گئی تھی جس کے بعد اچانک سے کشتی ایک جانب پلٹ گئی تھی۔
یونان کے نگران وزیر اعظم لونیس سارماس نے کہا ہے کہ کشتی ڈوبنے کے حوالے سے حقائق اور تکنیکی پہلوؤں کو جاننے کیلئے تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے، جلد ہی واقعے کے ذمہ داروں کا تعین کر لیا جائے گا۔
واضح رہے کہ یونان کے قریب سمندر میں تارکین وطن کی کشتی ڈوب گئی تھی جس کے نتیجے میں 79 افراد ہلاک اور سیکڑوں لاپتہ ہوگئے تھے۔
غیرملکی خبرایجنسی کے مطابق یونان کے پیپلوپونیز ریجن میں سمندر میں ڈوبنے والی تارکین وطن کی کشتی لیبیا سےاٹلی کی طرف جا رہی تھی کہ حادثے کا شکار ہوگئی۔
ابتدائی رپورٹس میں بتایا گیا تھا کہ حادثے کے نتیجے میں کم از کم 79 تارکین وطن ڈوب کر ہلاک ہوگئے ہیں جبکہ 104 مسافروں کو بچالیا گیا ہے۔
حکام کے مطابق 65 سے 100 فٹ لمبی کشتی میں ممکنہ طورپر750 افراد سوار تھے، کشتی میں سوار افراد کی حتمی تعداد ابھی معلوم نہیں ہوسکی ہے۔یونانی حکام کا کہنا ہے کہ کشتی میں بیشترتارکین وطن کا تعلق مصر، شام، افغانستان اور پاکستان سے ہے۔حکام کے مطابق یونانی کوسٹ گارڈز اور نیوی کی کشتیاں، جہاز اور ہیلی کاپٹرز ریسکیو آپریشن میں شریک ہیں۔