روسی حکومت نے کہا ہے کہ باغی گروپ ویگنر کے سربراہ بیلاروس جائیں گے اور روس کے خلاف فوجی پیش قدمی روکنے کے بعد بغاوت کے الزامات کا سامنا نہیں کریں گے۔
غیر ملکی خبر رساں اداروں کے مطابق ویگنر کے سربراہ یوگینی پریگوزین اور روس کے فوجی پیتل کے درمیان جھگڑا گزشتہ روز پرتشدد شکل اختیار کر گیا، ان کی افواج نے ہفتے کے روز جنوبی روس میں فوج کے ایک اہم ہیڈ کوارٹر پر قبضہ کر لیا اور پھر دارالحکومت کو دھمکی دیتے ہوئے شمال کی جانب پیش قدمی کی تھی۔
پریگوزین کے منظرعام پر آنے کے چند گھنٹوں کے اندر کریملن نے اعلان کیا کہ وہ بیلاروس کے لیے روانہ ہو جائیں گے اور روس ان پر یا ویگنر کے اراکین پر مقدمہ نہیں چلائے گا۔
یہ ایک ڈرامائی دن تھا جس میں صدر ولادیمیر پیوٹن نے خانہ جنگی کے خلاف خبردار کرتے ہوئے مقامی لوگوں کو سڑکوں سے دور رہنے کا مشورہ دیا تھا اور کیف میں لوگ افراتفری کا شکار ہو گئے تھے۔
یہ صورتحال اچانک بدل گئی جب پریگوزن نے یہ اعلان کیا کہ روسی دارالحکومت میں خونریزی سے بچنے کے لیے اس کی فوجیں میدانی کیمپوں میں واپس جا رہی ہیں۔
ماسکو کی فوجی قیادت کے ساتھ شدید اختلاف رکھنے والے پریگوزین نے روس کے یوکرین حملے کے کچھ حصوں کی قیادت کی تھی اور انہوں نے کہا کہ وہ اس موقع کی اہمیت کو سمجھتے ہیں اور روسی خون بہانا نہیں چاہتے۔
علاقائی گورنر نے کہا کہ اتوار کے اوائل تک ویگنر نے روستوو-آن-ڈان سے جنگجوؤں اور آلات کو واپس بلا لیا تھا جہاں انہوں نے فوجی ہیڈکوارٹر پر قبضہ کر لیا تھا۔
لیکن ان کے جانے سے پہلے مقامی باشندوں نے خوشی کا اظہار کیا اور اس فوجی ہیڈ کوارٹر کے باہر ویگنر وینر کے نعرے لگائے جس پر انہوں نے قبضہ کر لیا تھا۔
جنوبی لپیٹسک کے علاقے میں حکام نے ابتدائی طور پر ویگنر جنگجوؤں کی اپنے علاقے میں موجوگی کی اطلاع دینے کے بعد پابندیاں ہٹانے کا اعلان کیا تھا۔
بیلاروسی رہنما الیگزینڈر لوکاشینکو نے کہا کہ انہوں نے پریگوزن کے ساتھ جنگ بندی پر بات چیت کی ہے۔
کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے بعد میں نامہ نگاروں کو بتایا کہ پریگوزن کے خلاف مجرمانہ مقدمہ خارج کر دیا جائے گا، وہ خود بیلاروس جائیں گے، پیسکوف نے یہ بھی کہا کہ اس مسلح بغاوت کا حصہ بننے والے ویگنر کے ارکان کے خلاف مقدمہ بھی نہیں چلایا جائے گا۔