فرانس کے دارالحکومت پیرس میں گزشتہ ہفتے پولیس کی فائرنگ سے نوجوان کے قتل سے شروع ہونے والی جھڑپوں کے بعد احتجاج پر پابندی کے باوجود ہزاروں افراد سڑکوں پر نکل آئے۔
رپورٹ کے مطابق پولیس نے پیرس کے مرکزی علاقے میں جمع ہونے والے مظاہرین کو منتشر کردیا اور بولیوارڈ میگنٹا کی طرف دھکیل دیا جہاں انہوں نے پرامن مارچ کیا۔
پیرس کے محکمہ پولیس نے اپنی ویب سائٹ پر جاری بیان میں کہا کہ کشیدگی کے پیش نظر منظم احتجاج پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔
پابندی کے باوجود احتجاج میں شامل ہونے والے ورکر فیلکس بوویریل نے کہا کہ فرانس میں ہمیں اب بھی اظہار رائے کی آزادی ہے لیکن خاص طور پر اجتماع کی آزادی خطرے میں ہے اور اس سے انہوں نے افسوس ناک قرار دیا۔
حکام نے فرانس کے شمالی شہر لیلے میں بھی احتجاج پر پابندی عائد کردی ہے تاہم مارسیلی میں مختلف انداز میں سٹی سینٹر کے باہر مارچ کیا گیا۔
فرانس کے وزیرداخلہ گیرالڈ ڈارمینن نے کہا کہ رواں ہفتے 3 ہزار سے زائد افراد جن میں سے اکثر نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا تھا اور جھڑپوں کے اختتام کے بعد 2 ہزار 500 عمارتوں کو نقصان پہنچا تھا۔
یاد رہے کہ فرانس میں 27 جون کو ٹریفک اسٹاپر پولیس کی فائرنگ سے 17 سالہ نوجوان ناہیل ایم کے قتل کے بعد شدید احتجاج شروع ہوا تھا اور پولیس زیرتفتیش ہے۔
فائرنگ کرنے والے پولیس کے وکیل نے بتایا کہ نوجوان کو قتل کرنا ان کا ارادہ نہیں تھا۔
رپورٹ کے مطابق ہفتے کو احتجاج ایڈاما ٹراؤر کے اہل خانہ کی اپیل کیا جا رہا تھا جو سیاہ فارم فرانسیسی تھے اور 2016 میں پولیس کی حراست میں انتقال کر گئے تھے۔
مذکورہ شہری کی زیرحراست انتقال کے بعد ہر سال احتجاج کیا جاتا ہے اور منتظمین نے ریلی مرکزی پیرس کی طرف موڑ دی کیونکہ پیرس کے مضافات بیاؤمونٹ سر آوئس میں پابندی عائد کی گئی تھی جہاں ٹراؤرے کا انتقال ہوا تھا۔
صدر ایمانوئیل میکرون سمیت فرانس کے حکام اور سیاست دانوں نے ملک کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اندر منظم نسل پرستی کا تاثر مسترد کردیا تھا۔
فرانس کی وزارت خارجہ نے ہفتے کو کہا تھا کہ ملک کا قانونی نظام نسل پرستانہ نہیں ہے جبکہ ایک روز قبل نسل پرستی کے انسداد کے اقوام متحدہ کی کمیٹی نے فرانس سے مطالبہ کیا تھا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں سمیت منظم اور ڈھانچہ جاتی نسل پرستانہ امتیاز حل کیا جائے۔
وزارت خارجہ نے بیان میں کہا کہ فرانس کے قانون نافذ کرنے والے اداروں میں منظم نسل پرستی یا امتیاز کا الزام بے بنیاد ہے۔