بھارت نے سورج پر تحقیق کیلئے راکٹ روانہ کر دیا

نئی دہلی (سی این پی)بھارت کی چاند پر کامیاب لینڈنگ کے بعد ملک کی خلائی ایجنسی نے سورج کی جانچ اور تحقیق کے لیے اپنے پہلے شمسی مشن ہفتے کے روز ایک راکٹ روانہ کردیا۔

انڈین اسپیس ریسرچ آرگنائزیشن کی ویب سائٹ پر براہ راست نشریات کے مطابق، سائنسدانوں نے تالیاں بجاتے ہوئے راکٹ کو روانہ کیا۔

اس نشریات کو تقریباً 5لاکھ ناظرین نے دیکھا جبکہ ہزاروں افراد لانچ سائٹ کے قریب گیلری میں جمع ہوئے تاکہ اس راکٹ کو روانہ ہوتے دیکھا جا سکے جس کا مقصد شمسی ہواؤں کا مطالعہ کرنا ہے، جو زمین پر عام طور پر خلل کا باعث بن سکتی ہیں۔

سورج کے لیے ہندی لفظ کے نام سے منسوب ’آدتیا ایل1‘ کو ایک ایسے موقع پر لانچ کیا گیا جب گزشتہ ماہ بھارت نے روس کو شکست دیتے ہوئے چاند کے قطب جنوبی پر اترنے والا پہلا ملک بن گیا تھا۔

گوکہ روس کے پاس زیادہ طاقتور راکٹ تھا لیکن اس کے باوجود بھارت کا راکٹ چندریان-3 نے انہیں پیچھے چھوڑتے ہوئے چاند پر کامیابی کے ساتھ لینڈنگ کی۔

آدتیا۔ایل1 خلائی جہاز کو 4 مہینوں میں تقریباً 15 لاکھ کلومیٹر (930,000 میل) کا سفر کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے تاکہ خلا میں ایک طرح کی پارکنگ لاٹ کی جائے جہاں اشیا کشش ثقل کی قوتوں کو متوازن کرنے کی وجہ سے ٹھہری رہتی ہیں اور خلائی جہاز کے لیے ایندھن کی کھپت کو کم کرتی ہے۔

ان پوزیشنوں کو لیگرینج پوائنٹس کہا جاتا ہے، جہاں یہ نام اطالوی-فرانسیسی ریاضی دان جوزف لوئس لاگرینج کے نام پر رکھا گیا ہے۔

سومک رائے چوہدری نے کہا کہ اس مشن میں سائنس کے میدان میں بڑا دھماکا کرنے کی صلاحیت ہے اور سورج سے خارج ہونے والے توانائی کے ذرات مصنوعی سیاروں کو نشانہ بنا سکتے ہیں جو زمین پر مواصلات کو کنٹرول کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایسے مواقع بھی آئے جب بڑے مواصلات بند ہو گئے ہیں کیونکہ ایک سیٹلائٹ بڑے کورونا کے اخراج سے متاثر ہوا ہے، زمین کے نچلے مدار میں سیٹلائٹس عالمی نجی کھلاڑیوں کی توجہ کا مرکز ہیں جو آدتیا ایل1 مشن کو ایک بہت اہم پروجیکٹ بناتا ہے۔

سائنسدانوں کو امید ہے کہ مدار میں موجود ہزاروں مصنوعی سیاروں پر شمسی تابکاری کے اثر کے بارے میں مزید معلومات حاصل ہوں گی کریں جہاں ایلون مسک کے اسپیس ایکس کے اسٹار لنک مواصلاتی نیٹ ورک جیسے منصوبوں کی کامیابی کے ساتھ یہ تعداد بڑھ رہی ہے۔

انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ارتھ اینڈ اسپیس سائنسز کے شعبے کے سربراہ راما راؤ ندامنوری نے کہا کہ نجی شرکت کی وجہ سے زمین کا نچلا مدار بہت زیادہ آلودہ ہو چکا ہے، اس لیے یہ سمجھنا کہ وہاں سیٹلائٹس کی حفاظت کیسے کی جائے، آج کے خلائی ماحول میں خاص اہمیت ہو گی۔

انڈین اسپیس ریسرچ آرگنائزیشن کے سائنسدانوں نے کہا ہے کہ طویل مدتی، مشن کا ڈیٹا زمین کے آب و ہوا کے نمونوں پر سورج کے اثرات اور شمسی ہوا کی ابتدا سمیت دیگر چیزوں کو بہتر طور پر سمجھنے میں مدد کر سکتا ہے۔