واشنگٹن(مانیٰٹرنگ ڈیسک )امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یورپی یونین سے کہا ہے کہ وہ بھارت اور چین پر 100 فیصد ٹیرف عائد کرے۔ فنانشل ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق امریکی صدر نے یورپی یونین پر زور دیا ہے کہ وہ ماسکو پر دباؤ ڈالنے کی مشترکہ کوشش کے تحت چین اور بھارت سے درآمدات پر 100 فیصد تک ٹیرف عائد کرے۔ اخبار کے مطابق امریکی صدر نے یہ مطالبہ حال ہی میں واشنگٹن میں امریکی اور یورپی یونین کے اعلیٰ حکام کے درمیان ہونے والی ملاقات کے دوران کیا، جہاں روس کے لیے یوکرین جنگ کے معاشی اخراجات بڑھانے کی حکمت عملیوں پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
ایک امریکی اہلکار نے کہا کہ امریکا اس سلسلہ میں فوری اقدامات کے لئے تیار ہے لیکن ہم یہ صرف اس صورت میں کریں گے جب ہمارے یورپی شراکت دار ہمارے ساتھ شامل ہوں۔ رپورٹ کے مطابق امریکی صدر کا خیال ہے کہ ہم سب کر چین اور بھارت کے خلاف ٹیرف عائد کریں اور اس کو اس وقت تک برقرار رکھیں جب تک کہ چینی تیل کی خریداری بند کرنے پر راضی نہ ہو جائیں ۔ امریکی حکام کے مطابق امریکا چین اور بھارت پر یورپی یونین کی طرف سے عائد کردہ کسی بھی محصول کے برابر محصول عائد کرنے کو تیار ہے۔
یورپی یونین کے حکام نے پہلے ہی روس سے توانائی کی درآمدات کے لیے چین کے خلاف ممکنہ ثانوی پابندیوں پرغور شروع کر دیا ہے تاہم کہا ہے کہ بات چیت ابھی ابتدائی مرحلے میں ہے اور اس کا انحصارامریکی حمایت پر منحصر ہے ۔واضح رہے کہ گزشتہ ماہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے روس سے خام تیل کی خریداری کا حوالہ دیتے ہوئے بھارتی مصنوعات پر محصولات کو دوگنا کرکے 50 فیصد کر دیا تھا۔
اس کے بعد چین نے بھی روس سے ایندھن کی خریداری کو روکنے کے حوالہ سے مغربی ممالک کے دبائو کو مسترد کر دیا ہے اور کہا ہے کہ ٹیرف وارز میں کوئی فاتح نہیں ہوتا۔ 2022 میں یوکرین کے تنازع میں اضافے کے بعد سے روس چین اور بھارت دونوں کو تیل فراہم کرنے والے سب سے بڑے ممالک میں سے ایک بن چکا ہے۔ صدر ولادیمیر پیوٹن نے مغربی ممالک کو بیجنگ اور نئی دہلی کے بارے میں “نوآبادیاتی لہجہ” استعمال کرنے سے خبردار کرتے ہوئے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ انہیں سزا دینے کی کوششوں کا مقصد ان کی معاشی ترقی کی رفتار کو سست کرنا ہے۔
روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے کہا ہے کہ ڈیڑھ ارب آبادی والا ملک بھارت اور ایک ارب تیس کروڑ کی آبادی والا ملک چین 1.3 طاقتور معیشتیں ہیں اور امریکا کی طرف سے ایسے شراکت داروں سے ایسے لہجے میں بات کرنا ناقابل قبول ہے۔