سٹی ہاؤسنگ میرپور منصوبہ، اوورسیز سرمایہ کاروں کے لیے خطرہ بااثر شخصیات کے ملوث ہونے کا انکشاف

اسلام آباد (سپیشل رپورٹر) سٹی ہاؤسنگ اسکیم میرپور میں سنگین قانونی، تکنیکی اور شفافیت کے تقاضوں کی کھلی خلاف ورزی کا شکار ہو کا انکشاف، بااثر شخصیات کی مبینہ مداخلت اور ریاستی اداروں کی پراسرار خاموشی نے منصوبے کے قانونی اور فنی پہلوؤں پر مزید سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ سٹی ہاوسنگ کے این او سی پر سنگین سوالات اٹھنا شروع ہو گئے ہیں، ذرائع کے مطابق منصوبے کی ابتدائی منظوری مشکوک بنیادوں پر دی گئی، کیونکہ زمین کا جیالوجیکل معائنہ، سائنسی جانچ، آبی گزرگاہوں کی نشاندہی اور دیگر قانونی تقاضے مکمل نہیں کیے گئے۔ اربوں روپے مالیت کا یہ منصوبہ اوورسیز سرمایہ کاروں کے لیے ممکنہ خطرے کی گھنٹی بن چکا ہے،معتبر ذرائع کے مطابق سٹی ہاؤسنگ اسکیم نے تاحال تمام قانونی تقاضے مکمل کر کے میرپور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (MDA) سے باقاعدہ این او سی حاصل نہیں کیا۔ منصوبے کے لیے زمین کی ملکیت، جیالوجیکل سروے، ماحولیاتی اثرات کی رپورٹ (EIA)، محکمہ ماحولیات سے تین این او سی اور زمین کی درست سائزنگ رپورٹ جیسے بنیادی تقاضے مکمل نہ ہونا اس کی قانونی حیثیت کو مشکوک بنا رہا ہے.

ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ واپڈا کی نشاندہی کے مطابق منصوبہ “سی پج” قرار دی گئی خطرناک زمین پر شروع کیا گیا ہے، جہاں ماضی میں زمین بیٹھنے کے کئی واقعات پیش آ چکے ہیں، ان حقائق کے باوجود تعمیراتی سرگرمیوں کی اجازت دینا انسانی جانوں، املاک اور قدرتی ماحول کے لیے شدید خطرہ تصور کیا جا رہا ہے۔رولز آف بزنس 1974 کے تحت کسی بھی ہاؤسنگ منصوبے کی حتمی منظوری کا اختیار صرف متعلقہ ڈویلپمنٹ اتھارٹی کو حاصل ہے، جس کے بغیر کسی بھی این او سی کی قانونی حیثیت مشکوک ہے۔ اتھارٹی کی شرائط کے مطابق منصوبے کی کل اراضی کا 20 فیصد اور تمام پبلک ایریاز باقاعدہ طور پر سرکاری ملکیت میں منتقل کیے جانے تھے، تاہم ڈی سی آفس میرپور کی جانب سے عجلت میں جاری کردہ این او سی نے قانونی تقاضوں کو یکسر نظرانداز کر دیا۔ڈپٹی کمشنر میرپور چوہدری ریاض کے مطابق سوسائٹی انتظامیہ نے منصوبے کے 50 کمرشل پلاٹ، جن کی مجموعی مالیت 1 ارب 25 کروڑ روپے ظاہر کی گئی، بطور ضمانت گروی رکھ کر این او سی حاصل کیا۔

لیکن ان پلاٹوں کی نہ تو باقاعدہ ملکیت کے شواہد فراہم کیے گئے، نہ سائنسی بنیادوں پر آزادانہ ویلیوایشن کرائی گئی اور نہ ہی کسی بینک یا مالیاتی ادارے سے کیش یا مالی ضمانت لی گئی۔دستاویزات کے مطابق سوسائٹی کی جانب سے ماحولیاتی این او سی کے لیے جمع کرائے گئے کاغذات اور ڈپٹی کمشنر آفس کے ریکارڈ میں نمایاں تضاد موجود ہے۔ ماحولیات کو جمع کرائے گئے کاغذات میں 500 کنال اراضی ظاہر کی گئی، جبکہ ڈی سی آفس کے نوٹیفکیشن کے مطابق سوسائٹی نے 3200 کنال اراضی خریدنے کا دعویٰ کیا ہے، جس نے منصوبے کی شفافیت پر مزید سوالات اٹھا دیے ہیں۔ علاقے کے عوام، ماحولیاتی ماہرین اور شہری حلقوں نے چیف سیکرٹری آزاد کشمیر، چیئرمین نیب اور عدلیہ سے فوری نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے تاکہ کسی ممکنہ انسانی یا مالی المیے سے بچا جا سکے۔