بجلی کی بچت کیلئے منصوبہ تیار کر لیا ہے،خرم دستگیر

اسلام آباد(سی این پی )وفاقی وزیر توانائی خرم دستگیر نے کہا ہے کہ حکومت نے بجلی کی بچت کیلئے منصوبہ تیار کر لیا ہے، 84 فیصد فیڈرز پر لوڈ شیڈنگ 4 گھنٹے سے کم ہے، صنعتوں کو بلاتعطل بجلی فراہم کی جا رہی ہے، پانی کی کم آمد کی وجہ سے ہائیڈل بجلی کی پیداوار کم ہے، موسم کی شدت کی وجہ سے بجلی کی طلب میں اضافہ ہوا ہے، پچھلی حکومت نے بڑھتی ہوئی طلب کیلئے اقدامات نہیں کئے، 15 جون سے 600 میگاواٹ اور رواں ماہ کے آخر تک 1100 میگاواٹ مزید بجلی سسٹم میں آ جائے گی، آئندہ ماہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ میں نمایاں کمی آئے گی، لائف لائن صارفین کو بجلی کی قیمت میں اضافہ کے اثرات سے بچائیں گے، آئندہ درآمدی ایندھن سے کوئی بجلی گھر نہیں لگایا جائے گا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے بدھ کو پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ وفاقی وزیر بجلی نے کہا کہ بجلی کی مجموعی پیداوار 22010 میگاواٹ اور طلب 26 ہزار 227 میگاواٹ ہے، بجلی کا شارٹ فال 4 ہزار 127 میگاواٹ ہے، 84 فیصد فیڈرز پر چار گھنٹے سے کم لوڈ شیڈنگ کی جا رہی ہے، صنعتی شعبہ کو بلاتعطل بجلی فراہم کی جا رہی ہے، کوشش ہے کہ 2 سے 3 ہفتوں میں بجلی کی پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ کریں، کوئلہ کی کمی دور کرنے کا انتظام ایک ہفتہ پہلے ہی کر لیا تھا، 15 جون سے کوئلہ کے پیداواری پلانٹ سے 600 میگاواٹ بجلی حاصل ہو گی جس سے لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ مزید آدھا گھنٹہ کم ہو جائے گا، کے ٹو پاور پلانٹ پر ری فیولنگ ہو رہی ہے، رواں ماہ کے آخر تک ری فیولنگ سے کے ٹو اپنی مکمل استعداد 1100 میگاواٹ بجلی پیدا کرے گا جس سے لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ مزید ایک گھنٹہ کم ہو جائے گا جبکہ کوئلہ سے بجلی کی مکمل پیداوار رواں ماہ کے آخر تک شروع ہو جائے گی اور جولائی کے شروع میں لوڈ شیڈنگ میں نمایاں کمی آ جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ کیروٹ ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کو فروری 2022ء میں مکمل ہونا تھا، اس پر 2016ء میں کام شروع ہوا تھا اس سے 720 میگاواٹ کی پیداوار سے جتنی بھی زیادہ سے زیادہ بجلی حاصل ہو سکتی ہے، حاصل کریں، کیروٹ ہائیڈرو پاور پلانٹ کو فعال کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بدھ کو پن بجلی کی پیداوار 3396 میگاواٹ تھی جسے 4500 میگاواٹ ہونا چاہئے تھا جبکہ ہماری پن بجلی کی مجموعی پیداواری صلاحیت ساڑھے 8 ہزار میگاواٹ ہے، پانی کی کم آمد کی وجہ سے ہائیڈل بجلی کی پیداوار کم ہے، تریموں پاور پلانٹ چوتھا آر ایل این جی پاور پلانٹ ہے جسے تین سال پہلے مکمل ہو جانا چاہئے تھا اس پر بھی کام تیز کر دیا گیا ہے اور رواں سال وہ اپنا کمرشل آپریشن شروع کر دے گا، تھر میں شنگھائی الیکٹرک کول پاور پلانٹ کا 1200 میگاواٹ کا پلانٹ پچھلی حکومت نے نظر انداز کیا اس کیلئے بھی مذاکرات ہو رہے ہیں تاکہ اس سے جلدی پیداوار شروع ہو جائے اور نہ صرف رواں موسم گرما میں عوام کو ریلیف دے سکیں بلکہ آئندہ موسم گرما کیلئے بھی تیاری کی جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ اپریل سے اب تک اوسط درجہ حرارت میں 25 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا، موسم کی شدت کی وجہ سے بجلی کی طلب میں اضافہ ہوا ہے، گذشتہ سال کے مقابلہ میں رواں سال زیادہ بجلی پیدا ہو رہی ہے لیکن طلب بڑھنے کی وجہ سے شارٹ فال ہے، بجلی کی بچت کے حوالہ سے بھی حکومت نے پلان مرتب کیا ہے، ایندھن بند پاور پلانٹس کو چلانے اور بجلی کی بچت کیلئے اقدامات کئے جا رہے ہیں، دکانیں شام کو جلد بند کرنے کا بھی پلان ہے، اس کے علاوہ ہفتہ کی تعطیل اور ایک دن 20 فیصد ملازمین کے ورک فرام ہوم کی تجویز ہے تاکہ بجلی کی کھپت کم ہو اور مہنگے ایندھن کی بھی بچت ہو۔ انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کے پچھلے دور میں شروع ہونے والے منصوبے ہی مکمل ہو رہے ہیں، پچھلی حکومت نے بڑھتی ہوئی طلب کیلئے اقدامات نہیں کئے اور پچھلے چار سال میں ایک میگاواٹ بجلی سسٹم میں شامل نہیں کی، کے ٹو، کے تھری، کیروٹ، شنگھائی تھرکول اور تریموں آر ایل این جی پلانٹس پر کام مسلم لیگ (ن) کے دور میں شروع ہوا تھا اور ہم نے 31 مئی 2018ء تک طلب سے زیادہ بجلی پیدا کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ جتنی کم سے کم لوڈ شیڈنگ کرنا پڑے، کریں، 84 فیصد فیڈرز پر لوڈ شیڈنگ چار گھنٹے سے کم ہے، وزیراعظم روزانہ بجلی کی صورتحال سے متعلق بریفنگ لے رہے ہیں اور ہماری کوشش ہے کہ بجلی کے حوالہ سے تمام اعداد و شمار قابل اعتماد اور مصدقہ ہوں۔ انہوں نے کہا کہ شعبہ توانائی کے پیچیدہ معاملات کا روزانہ کی بنیاد پر جائزہ لیا جا رہا ہے، بجلی کے چھوٹے صارف کے تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے کوشاں ہیں، لائف لائن صارفین کو بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمت سے بچائیں گے جو کہ کل صارفین کا 65 فیصد ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں آئندہ درآمدی ایندھن سے کوئی بجلی گھر نہیں لگایا جائے گا، کم بجلی پیدا کرنے والے پاور پلانٹس مرحلہ وار ختم کر دیں گے، ہمارے پاس 23 ہزار میگاواٹ کی پیداواری صلاحیت اس وقت ہے، اگلے سال موسم گرما سے پہلے 26 ہزار میگاواٹ بجلی دستیاب ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ زیادہ نقصان والے فیڈرز ہمارے لئے چیلنج ہے، ان فیڈرز کی درجہ بندی پر غور کیا جا رہا ہے کیونکہ واجبات کی ادائیگی کرنے والے صارفین کو زیادہ نقصان والے فیڈرز کے نام پر بجلی سے محروم نہیں رکھنا چاہتے اس سلسلہ میں منتخب نمائندوں اور صوبائی حکومتوں کی معاونت بھی درکار ہو گی، بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ایسے فیڈرز بھی ہیں جہاں ایک بھی صارف رجسٹرڈ نہیں ہے اور وہاں پر بل ادا نہیں کئے تھے۔