مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کا کہنا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کا انقلاب اب سپریم کورٹ کی جانب دیکھ رہا ہے کہ وہ فیصلہ دیں تو یہ تاریخ کا اعلان کریں، میں اس چیز کی مذمت کرتی ہوں کہ اداروں کو گندی سیاست میں گھسیٹنے کا سلسلہ ختم ہونا چاہیے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مریم نواز نے کہا کہ سب نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ ان فتنہ گردوں کو تاریخی شکست ہوئی، اب رانا ثنا اللہ ان کی راہ دیکھ رہے ہیں لیکن وہ انقلاب کی تاریخ نہیں دے پا رہے۔
انٹر سروس انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کو اختیارات دیے جانے سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میں اس بات پر یقین رکھتی ہوں کہ آئی ایس آئی کا ادارہ وزیراعظم کے ماتحت کام کرتا ہے، اگر وزیراعظم نے اس طرح کا کوئی قدم اٹھایا ہے تو ظاہر ہے حکومتوں کو بہت کچھ کرنا پڑتا ہے، یہ ایک باقاعدہ طریقہ کار ہے، کس وقت کس ادارے سے کیا کام لینا ہے یہ وزیراعظم بہتر جانتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کا وزیراعظم اب ایک ایسا شخص ہے جس کو عوام کے درد اور تکالیف کا احساس ہے، وہ دن رات عوام کو ریلیف دینے کے لیے کوشاں ہیں، وزیراعظم اپنی تمام تر مصروفیات ترک کرکے لوڈشیڈنگ اور مہنگائی کے مسئلے پر توجہ دے رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان کی حکومت اتنی نالائق تھی کہ بنے بنائے کارخانوں کو چلا نہیں سکی، ان کہ نہ چلنے کی وجہ سے بھلی کی طلب اور رسد کا فرق ساڑھے 4 ہزار میگاواٹ تک آگیا ہے، ان شا اللہ 30 جون تو وہ سارے بند پڑے کارخانے چلا دیے جائیں گے، جس کے بعد ان شا اللہ لوڈشیڈنگ میں بتدریج کمی آتی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ مسائل کی وجوہات بتانے کے ساتھ ساتھ ہم نے ان کے حل کے لیے کام بھی شروع کردیا ہے، ہم صرف رونا نہیں رو رہے۔
انہوں نے میڈیا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تنقید اس پر ہونی چاہیے جس نے معاملات کو خراب کیا، نہ کہ اس حکومت پر جو ملک کو ان مسائل سے نکالنے کی کوشش کررہی ہے۔
مریم نواز کا کہنا تھا کہ عمران خان آنے والی حکومت کے لیے بارودی سرنگیں بچھا گئے اور ملک آئی سی یو میں پھینک گئے، ایسا بوجھ ڈال کر گئے جس کو اٹھانے کی پاکستان میں ہمت نہیں، پاکستان کے دیگر ملکوں سے تعلقات بھی خراب کردیے گئے، ان شا اللہ ہم ان کو ٹھیک کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ کہ کل شیخ رشید صاحب فرما رہے تھی کہ مجھے 4 ماہ پہلے پتا چل گیا تھا کہ حکومت جانے والی ہے، پھر یہ سوال تو بنتا ہے کہ خط اور سازش کا ڈرامہ کیوں رچایا گیا؟ ہہ جو بارودی سرنگیں بچھا کر گئے ہیں اس سے ہم قوم کا آگاہ کرتے رہیں گے۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان کے اپنے لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ عمران خان پاگل آدمی ہے، کسی کی سنتا ہی نہیں ہے، تو پھر سوال یہ ہے کہ کیوں ایسے شخص کو ملک بھر میں فتنہ فساد پھیلانے کی اجازت دی گئی ہے؟ میڈیا سے بھی کہتی ہوں کہ اس شخص کا دکھانا کم کریں، بحث و مباحث ملکی مسائل اور ان کے حل پر ہونی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ بنی گالہ کا نام منی گالہ ہونا چاہیے، ایک تالا کھلوانے کے لیے خاتون اول کو 5 قیراط کا ہیرادیا گیا، آپ ہیرے بیشک ساری انگلیوں میں پہنیں مگر عوام کے نہیں اپنے حلال کے پیسوں سے خرید کر پہنیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ملک ریاض نے پیسے دیے انہیں جوابدہ ضرور ہونا چاہیئے لیکن سوال حکمران سے ہونا چاہیے جس نے میرٹ کے بجائے پیسے دے کر کام کروانے کا کلچر پروموٹ کیا، سوال ان سے کیا جائے جس نے پورا صوبہ فرح گوگی کے حوالے کیا۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کو اگر پیٹرول اور بجلی کی قیمتیں بڑھانی پڑی ہیں تو 28 ارب کا پیکج بھی عوام کو دیا ہے، اب اسے پورے سال کے لیے بجٹ کا حصہ بھی بنایا جارہا ہے تاکہ عوام پر کم سے کم بوجھ پڑے۔
انہوں نے کہا کہ شہباز شریف نے کپڑے بیچ کر خیبرپختونخوا کے عوام کو سستا آٹا دینے کا وعدہ کیا تو ان کا مذاق اڑایا گیا لیکن شہباز شریف نے 2 روز قبل وہ وعدہ پورا بھی کردکھایا۔
انہوں نے کہا کہ میرا خیال تھا کہ نیا مینڈیٹ لے کر حکومت بنائی جائے کیونکہ حکومت 5 سال کی ہوتی ہے، پہلے 2 سے 3 برس سخت فیصلے لیے جاتے ہیں اور اس کے بعد آخر کے 2 سال میں ریلیف دیا جاتا ہے، لیکن جب انہوں نے اسلام آباد پر حملہ آور ہونے کا اعلان کیا اس روز پوری مسلم لیگ (ن) ڈٹ گئی کہ یہ ملک کسی صورت جتھوں کے حوالے نہیں کیا جائے گا۔
مریم نواز نے کہا کہ ہم نے مشکلات کا سامنا کرنے کا فیصلہ کیا جو درست ثابت ہوا، سب نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ ان فتنہ گردوں کو تاریخی شکست ہوئی، اب رانا ثنا اللہ ان کی راہ دیکھ رہے ہیں لیکن وہ انقلاب کی تاریخ نہیں دے پا رہے۔
انہوں نے کہا کہ پہلے تو انقلاب نے اپنی راہداری ضمانت کرائی اور اب انقلاب سپریم کورٹ کی جانب دیکھ رہا ہے کہ وہ فیصلہ دیں تو یہ تاریخ کا اعلان کریں، اس سے ان کی مراد یہ ہے کہ جو انقلاب ہم نہیں لاسکے اس میں سپریم کورٹ ہماری معاونت کرے، میں اس چیز کی مذمت کرتی ہوں کہ اداروں کو گندی سیاست میں گھسیٹنے کا سلسلہ ختم ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ صحافیوں کی جانب سے ریٹائرڈ فوجیوں سے سوال کیا گیا لیکن وہ جواب دیے بغیر بھاگ گئے، مجھے یہ دیکھ کر بہت افسوس ہوا، اگر وہ اپنے ادارے سے وفادار نہیں ہیں اور کسی کہ کہنے پر ادارے میں تفریق پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں تو انتہائی افسوسناک بات ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ نہیں ہونا چاہیے کہ عمران خان کے کہنے پر ریٹائرڈ افسران اس ادارے کو برا بھلا کہیں جس نے انہیں تمغے دیے، اگر آپ کو اتنا شوق ہے سیاست کا تو میرا مخلصانہ مشورہ ہے کہ اپنے نام کے ساتھ لگائے گئے رینکس، ٹائٹلز اور جو عزت آپ کو افواج پاکستان نے دی ہے وہ اتار پھینکیں، اسے ادارے کو واپس کریں اور کسی رینک کے بغیر جا کر کسی سیاسی جماعت سے اپنے تعلق کا اعلان کریں۔
پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر عامر لیاقت کے انتقال پر اظہار تعزیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر عامر لیاقت کی رحلت سے متعلق ابھی پتا چلا، اللہ ان کے درجات بلند کرے، ان کا اگلا سفر آسان کرے اور ان کی بخشش فرمائے، ان کے اہل خانہ کے ساتھ میں دلی طور پر تعزیت کرتی ہوں۔