وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ خان نے کہا کہ آئی ایم ایف ہمیں تگنی کا ناچ نچا کر اور ہماری ناک سے لکیریں نکلواکر بھی خوش نہیں ہوا اور اس کی شرائط پوری نہیں ہوئیں۔ ہم نے پٹرول کی قیمت کو بڑھایا اور کئی مشکل اقدام اٹھائے لیکن آئی ایم ایف پھر بھی نہیں مان رہا۔ ہم نے مشکل فیصلوں سے اپنی جماعت کیلئے بھی کئی مسائل کھڑے کرلئے لیکن سیاست پر ریاست کو ترجیح دی کیونکہ اگر ہم موجودہ ابتر معاشی صورتحال میں آئی ایم ایف کی شرائط کو نہ مانتے تو ملک ڈیفالٹ کرجاتا ۔ان خیالات کااظہار وفاقی وزیر داخلہ نے فیصل آباد میں نماز عید کی ادائیگی کے بعد اپنے ڈیرہ پر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کیا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان جیسا ملک زیرو سبسڈی کا معاہدہ کس طرح کرسکتا ہے کیونکہ عوامی حالت کو بھی مدنظر رکھنا ہوتا ہے اسی لئے ہم الیکشن کی جانب نہیں گئے تاکہ ملک کو ڈیفالٹ سے بچاسکیں۔ ہمارے پاس مفتاح اسماعیل، احسن اقبال، شاہد خاقان عباسی، مصدق ملک سمیت دس پندرہ انتہائی تجربہ کار معاشی و اقتصادی ماہرین کی ٹیم موجود ہے جو دن رات وزیر اعظم کی قیادت میں ملکی معاشی استحکام، مہنگائی میں کمی لانے اور کم آمدنی والے افراد سمیت تمام عوام کو ریلیف دینے کیلئے کوشاں ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ انہیں اچھے بیوروکریٹس کی بھی مکمل معاونت ورہنمائی حاصل ہے۔
انہوں نے کہا کہ سابقہ حکومت نے آئی ایم ایف سے جو معاہدہ کیا ہے اس پر آئی ایم ایف ہمیں تگنی کا ناچ نچا کر اور ہماری ناک سے لکیریں نکلواکر بھی خوش نہیں ہوا اور اس کی شرائط پوری نہیں ہوئیں۔ پچھلی حکومت نے زیرو سبسڈی کی شرط مانی لیکن اگر اس پر عمل کرتے ہوئے زیرو سبسڈی پر ملک چلایا جائے تو غریب تو مر جا ئے گا۔ ہم نے پٹرول کی قیمت کو بڑھایا اور کئی مشکل اقدام اٹھائے لیکن آئی ایم ایف پھر بھی نہیں مان رہا۔ اگر ہم مشکل فیصلہ کرکے فوری الیکشن کی بجائے حکومت کی طرف نہ جاتے اور ملک کو کیئر ٹیکرز کے حوالے کردیتے تو یہ ہمارے لئے آسان تھا لیکن اس سے ملک دیوالیہ ہوجاتا لیکن ملک کے خیر خواہوں نے کہا ہمیں مشکل فیصلے کرنے چاہئیں لہٰذااس لمحہ ہم نے سیاست کو ایک طرف رکھا اور ریاست کو بچایااور مشکل فیصلوں کی طرف گئے۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ عیدالاضحی کے پر مسرت موقع پر وہ اپنے پاکستانی بہن بھائیوں کو یقین دلانا چاہتے ہیں کہ امن و امان کے سلسلہ میں ہم نے بہتری لائی ہے اور مزید بہتری لائیں گے۔ فتنہ خان جو اسلام آباد جاکر لاشیں گرانا اور فتنے فساد پھیلانا چاہتا تھا ہم نے اس کا شافی علاج کردیا ہے، اس پاگل شخص کو یہ تک معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کس کے ہاتھ استعمال ہورہا ہے وہ اسلام آباد میں آگ لگانا چاہتا تھا جس کو روکنے کا کریڈٹ تمام جماعتوں کو جاتا ہے جس کے بعد اب ہم امن و امان کو اور بہتر کریں گے۔ ملک میں عوام کیلئے سبسڈی زیرو نہیں بلکہ فتنہ فساد زیرو ہونا چاہیے کیونکہ ایسا ہوگا تو معیشت ترقی کرے گی اور تجارت بڑھے گی۔ پاکستان پوری دنیا میں بہت اہمیت کا حامل ملک ہے اور پوری دنیا کیلئے بہت ضروری ہے یہ دنیا میں دہشت گردی کے خلاف فرنٹ لائن سٹیٹ کا کردار ادا کررہا ہے۔ دنیا کو پاکستان کی معیشت کا بھی احساس ہونا چاہیے۔ بہت جلد ملک کی معاشی صورتحال میں واضح بہتری نظر آئے گی اور الیکشن تک مسلم لیگ (ن) ثابت کرے گی کہ اس جماعت میں ملک کے مسائل حل کرنے اور ملکی معاشی صورتحال کو بہتر بنانے کی صلاحیت موجود ہے۔
رانا ثناء اللہ نے کہا کہ ہم ملک میں امن و امان کی صورتحال میں بہتری لانے کیلئے بھرپور اقدامات کررہے ہیں اور دہشت گردی کے واقعات پر بڑی حد تک قابو پالیا گیا ہے جبکہ جو اکا دکا واقعات رہ گئے ہیں ان پر بھی جلد قابو پالیں گے۔ اس ضمن میں ٹی ٹی پی سے مذاکرات کیلئے اعلیٰ سطحی پارلیمانی کمیٹی قائم کی جارہی ہے اور عسکری قیادت بھی اس ضمن میں آن بورڈ ہوگی تاکہ مستقل بنیادوں پر امن و امان کا مسئلہ حل ہوسکے جبکہ اس وقت بھی صورتحال مکمل کنٹرول میں ہے۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) عوامی مسائل حل کرنے کی سوجھ بوجھ رکھتی ہے لیکن ہمارا مؤقف تھا کہ غیر آئینی اور غیر سیاسی مداخلت نہیں ہونی چاہیے۔ ووٹ کو عزت دو سے مراد ووٹ کے فیصلے کو تسلیم کرنا ہے تاہم سیاستدان ایک دوسرے کے خلاف درخواستیں دیتے رہتے ہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتالیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ تحریک عدم اعتماد جس کے خلاف تھی وہ دہائیاں دے رہا ہے کہ وہ نیوٹرل ہوگئے۔
انہوں نے کہا کہ طیبہ گل اور ان کے شوہر ڈیڑھ ماہ وزیراعظم ہاؤس میں رہے جبکہ طیبہ گل کے گھر کا کرایہ بھی حکومت دیتی رہی ہے مگرپی ٹی آئی حکومت نے چیئرمین نیب کو کھلونا بنایا ہوا تھااور چیئرمین نیب سے جو کیس بنوانا ہوتا وہ طیبہ گل کو کہہ کر بنوالیا جاتا تھالیکن طیبہ گل اور اس کا خاوند بھی مجبور تھے۔ اس کا بھی اسی وقت سوموٹو ایکشن ہونا چاہیے تھا۔ طیبہ گل اور ان کے شوہر سے میری ملاقات بھی ہوتی رہی۔انہوں نے کہا کہ سیاست میں جیل آنا جانا لگا رہتا ہے اورخواجہ برادران بھی ڈیڑھ سال جیل میں رہے اسی طرح حمزہ شہباز،احد چیمہ بھی جیل میں رہے۔
انہوں نے کہا کہ عمران ریاض ایک مخصوص بیانیہ رکھتے ہیں جن پر بننے والے کیسزمیں حکومت مدعی نہیں بلکہ یہ مقدمات عام لوگوں کی طرف سے درج کروائے گئے ہیں۔ عمران ریاض کے ساتھ حکومت کی طرف سے کوئی غیر قانونی سلوک نہیں روا رکھا گیا جو ماضی میں ہوتا رہا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ کسی صحافی کو کسی سیاسی جماعت کا کارکن یا آلہ کار نہیں ہونا چاہیے۔ کسی کے خلاف اس حد تک چلے جانا کہ اس پر منشیات کا جھوٹا مقدمہ درج کرواکے سزائے موت دلوانے کی کوشش کرنا اور اتنے خطرناک جھوٹے مقدمے میں کسی چالان کروانے کی کوشش کرنا حالانکہ فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے قومی اسمبلی کے چاروں ارکان اسمبلی بشمول فرخ حبیب نے بھی اس کی مخالفت کی ایسا مقدمہ نہ بنایا جا ئے مگر پھر بھی اپنے پاس سے ہیروئن ڈال کر مقدمہ درج کروادیا گیا۔ چیف جسٹس آف پاکستان سے مطالبہ کرتے ہیں اس وقعہ کا سوموٹو نوٹس لیں اوردیکھیں ان پر جھوٹا کیس کس نے اور کیوں بنایا کیونکہ پاکستان کی 74 سالہ تاریخ میں ایسا گھٹیا پن کسی نے نہیں کیا لہٰذا اس کی انکوائری ہونی چاہیے اور ذمہ داران کو قرار واقعی سزا ملنی چاہیے۔ انہیں پہلے ہی روز ویران سیل میں بند اورایک چادر و ایک کمبل دیا گیا جو سراسر غیر قانونی و غیر اخلاقی اقدام تھا مگر انہیں جھکایا نہ جاسکا۔
انہوں نے کہا کہ 2014 سے ہی ایک جتھا تشکیل دیکر اسے ملک کا بیڑا غرق کرنے پر لگادیا گیا لیکن ہم الیکشن سے قبل پاکستان کے عوام کو یہ ثابت کرکے دکھائیں گے کہ ہم ملک و قوم کی خدمت کرنے کی مکمل اہلیت رکھتے اور ہماری نیت بھی نیک ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم ضمنی الیکشن سمیت آئندہ عام انتخابات میں بھی شاندار کامیابی حاصل کرکے ملک کو دوبارہ تعمیر و ترقی اور خوشحالی کی شاہراہوں پر گامزن کریں گے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ووٹ کو عزت دو کا مطلب ہے کہ ووٹ کے فیصلے کو عزت دو اس ضمن میں عوام کا فیصلہ تسلیم کیا جا ئے اورغیر آئینی، غیر سیاسی مداخلت نہ کی جائے۔ جن پر مداخلت کا الزام لگتا تھا وہ دہائی دیکر کہہ رہے ہیں کہ اگر ان کی طرف سے مداخلت ہوئی تو ثبوت پیش کرو۔انہوں نے مداخلت نہیں کی جبکہ عمران خان نے بھی اس بات کو تسلیم کیا ہے۔
رانا ثناءاللہ نے کہا کہ انہوں نے کہا کہ الیکشن صا ف اور شفاف ہوں گے جبکہ حکومت الیکشن کمیشن سے ہر طرح کا تعاون کرے گی۔ پی ایم،سی ایم، چیف سیکرٹری، آئی جی سمیت تمام حکومتی مشینری چیف الیکشن کمشنر کی ایک کال پر عملدرآمد کرے گی اور میری وزارت داخلہ بھی اپنی ذمہ داری ادا کرے گی۔