خواتین صحافی نوکری چھین جانے اور عدم تحفظ کا شکار ہیں، انڈوجویل لینڈ رپورٹ

انڈوجويل لینڈ نے پاکستان میں میڈیا میں صنفی تفاوت کو اجاگر کرنے کے لیے آئی ایف جے کے تعاون سے ایک رپورٹ کا اجرا کیا۔ میڈیا میں پاکستانی خواتین کو ہر قسم کے تفاوت اور تعصبات کا سامنا ہے جس میں پروموشن کے مواقعتنخواہوں کے ڈھانچے، ڈے کیئر سینٹرز جیسی سہولیات، زچگی کی چھٹیاں اور اعلیٰ عہدوں کے مواقع وغیرہ شامل ہیں۔” انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس ایشیا اینڈ پیسفک سے تعلق رکھنے والی محترمہ لبنیٰ نقوی نے یہ نتائج 9 نومبر 2022 کو انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس ایشیا اینڈ پیسفک کے تعاون سے انڈوجويل لینڈ پاکستان کے زیر اہتمام رپورٹ لانچ ایونٹ کے دوران پیش کیے۔
آئی ایف جے کے کنٹری ری پریزنٹیٹو غلام مصطفیٰ نے پاکستان میں میڈیا انڈسٹری میں صنفی بنیاد پر تفاوت پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے اس بات پر روشنی ڈالی کہ “خواتین کو ان کی اہلیت اور قابلیت کے باوجود مساوی مواقع نہیں دیے جاتے۔ انہیں خاص طور پر اپنے میڈیا گروپس میں اہم عہدوں پر فائز ہونے کا موقع نہیں دیا جاتا جس کے نتیجے میں ان میں احساس محرومی پیدا ہوتا ہے۔انڈوجويل لینڈ پاکستان کی نمائندگی کرنے والی محترمہ اریشہ سہیل نے میڈیا اہلکاروں کے ساتھ کیے گئے سروے کے اہم نتائج پر تفصیلی پریزنٹیشنز پیش کیں ۔۔


خواتین محققین جن میں محترمہ فوزیہ شاہد، محترمہ مائرہ عمران اور محترمہ راشدہ کیانی شامل ہیں نے بھی اپنی کوششوں اور تحقیق کے دوران درپیش چیلنجوں کے بارے میں بات کی تاکہ ضروریات کا جائزہ لیا جا سکے اور میڈیا میں خواتین کو درپیش مسائل کو اجاگر کیا جا سکے۔ کامیابی کی کہانیاں اور بہتری کے لیے سفارشات۔ ان کی مجموعی حیثیت.IFJ ایشیا پیسفک کی ڈائریکٹر محترمہ جین ورتھنگٹن نے میڈیا میں صنفی تفاوت پر IFJ کا کام پیش کیا۔ انہوں نے انفرادی لینڈ اور انڈوجويل لینڈ کی خواتین محققین کی نیڈزاسسمنٹ مشق کرنے اور نتائج، چیلنجز اور سفارشات کو رپورٹ کی شکل میں پیش کرنے کی کوششوں کو بھی سراہا۔


محترمہ گلمینہ بلال احمد، ایگزیکٹو ڈائریکٹر انڈوجويل لینڈ پاکستان نے اختتامی کلمات پیش کرتے ہوئے اس بات پر روشنی ڈالی کہ “میڈیا میں خواتین کو درپیش تفاوت کو اجاگر کرنے کے لیے جاری کوششوں کو جاری رکھنا چاہیے۔ انٹرنیشنل فورم فار جرنلسٹ آئی ایف جے کی رپورٹ کے نکات کے مطابق
رپورٹ 87 خواتین اور 12مردوں کی رائے پر مرتب کی گئی اور ان سے 44 سوالات پر مشتمل سوالنامہ کے جوابات اکھٹی کیے گئے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 49 فیصد میڈیا آرگنائزیشن میں صنفی برابری یا جینڈر پالیسی ہی نہیں ہیں۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 31 فیصد میڈیا ہاؤسز کو صنفی برابری اور جینڈر پالیسی کا ادارک ہی نہیں ہے۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 59 فیصد میڈیا ہاؤسز میں خواتین کے لیے پروموشن کی کوئی باضابطہ پالیسی نہیں ہے۔
پاکستان میں 48 فیصد خواتین صحافی نوکریوں کے چھین جانے کے خوف سے دو چار ہیں۔


پاکستان میں 84 فیصد خواتین صحافیوں کو الگ سے مخصوص فیمیل واش روم کی سہولت حاصل ہے۔ جبکہ ملک میں 16 فیصد خواتین صحافیوں مشترکہ واش روم استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔پاکستان میں 43 فیصد خواتین صحافیوں کو رات گئے ڈیوٹی کے بعد گھر تک ٹرانسپورٹ کی سہولت دستیاب نہیں ہے جبکہ 57 فیصد خواتین صحافیوں کو یہ سہولت حاصل ہے۔پاکستان میں 70 فیصد خواتین کو زچگی میں تنخواہ کے ساتھ چھٹیاں ملتی ہیں۔جس میں خواتین صحافیوں، خواتین ایڈیٹرز، خواتین کالم نگار، میڈیا مالکان اور میڈیا کے انتظامی امور چلانے والے ایڈمن آفیسرز بھی شامل ہیں۔

رپورٹ میں مختلف امور کے ماہر رپورٹرز، ایڈیٹرز، صحافیوں کی تنخواہیں، صحافیوں کے لیے تربیت کے مواقع، یونین ممبر شپ، کام کی جگہ پر جنسی ہراسگی، خواتین صحافیوں کی مالی، سماجی اور جانی تحفظ کو ریسرچ کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔رپورٹ کے مطابق زیادہ تر خواتین کو میڈیا میں انٹرشپ ، دوست احباب اور عزیز و اقارب کے تعلق سے نوکری حاصل ہوئی۔پاکستان میں کام کرنے والی 61 فیصد صحافیوں کو اس بات سے لاعلم رکھا جاتا ہے کہ ان کے میڈیا ہاؤسز میں فیصلوں کا حتمی اختیار کس کے پاس ہے۔