سال 2022 کا اختتام انتہائی افسوس ناک واقعے سے ہوا جہاں کراچی میں بی بی اے کا طالبعلم ڈکیتوں کے ہاتھوں گھر کی دہلیز پر قتل ہوگیا۔ رپورٹ کے مطابق کراچی میں پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے شہریوں کے تحفظ میں ناکام دکھائی دے رہے ہیں، ڈکیتوں کے ہاتھوں قتل ہونے والا نوجوان نجی یونیورسٹی میں بی بی اے کا طالبعلم تھا جس کی شناخت 25 سالہ جہانگیر سہیل کے نام سے ہوئی ہے۔
جہانگیر سہیل نارتھ کراچی سیکٹر 8 میں اپنے گھر کے باہر کھڑا تھا اسی دوران موٹر سائیکل پر سوار 2 مسلح ملزمان آئے اور لوٹنے کی کوشش کی، مزاحمت کے نتیجے میں ملزمان نے 2 گولیاں چلائیں اور کیمرہ، موبائل فون سمیت فرار ہوگئے۔
جہانگیر سہیل اقرا یونیورسٹی میں بی بی اے پروگرام کے تیسرے سال کا طالبعلم تھا اور پروفیشنل فوٹو گرافر بھی تھا، وہ ایک تقریب کی کوریج کے بعد گھر پہنچا تھا جب ڈکیتی کی واردات ہوئی۔
واقعے کے بعد اہلِ خانہ نوجوان کو عباسی شہید ہسپتال لے گئے۔
مقتول کے بھائی نے ڈان کو بتایا کہ ’عباسی شہید ہسپتال کے ڈاکٹرز نے جہانگیر کو آغا خان یونیورسٹی ہسپتال منتقل کرنے کا کہا، ڈاکٹرزکا کہنا تھا کہ گولی ریڑھ کی ہڈی میں لگی ہے جس کی وجہ سے وہ زندگی بھر کے لیے معذور ہوسکتا ہے اس لیے انہیں اس طرح کے کیسز میں مہارت حاصل نہیں ہے، جس کے بعد ہم جہانگیر کو آغا خان ہسپتال لے گئے جہاں وہ دم توڑ گیا۔‘
جہانگیر کی ایک بہن، ایک بھائی اور ماں ہے، وہ اپنے بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا تھا جبکہ ان کے والد پہلے ہی انتقال ہوچکے تھے۔
جہانگیر کے بچپن کا دوست حمیز ملک نے ڈان کو بتایا کہ مقتول جہانگیر بہت سادہ آدمی تھا، ان کی کسی سے کوئی دشمنی نہیں تھی۔
اگرچہ وہ بی بی اے کا طالبعلم تھا لیکن وہ پروفیشنل طور پر فوٹو گرافی کرتا تھا کیونکہ یہ اس کا جنون تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ جہانگیر گزشتہ 4 سالوں سے فوٹوگرافی کررہا تھا اور حال ہی میں اس نے نیا کیمرہ خریدا تھا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ’وہ گھر میں سب سے چھوٹا تھا تو اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہ سب کا لاڈلہ تھا، وہ بہت نرم مزاج کے علاوہ سادہ زندگی گزارنے کا عادی تھا، وہ یونیورسٹی جاتا، تقریبات کی کوریج کرتا اور واپس گھر آجاتا، جہانگیر سے تعلق رکھنے والے تمام لوگوں کے لیے یہ ایک بہت بڑا نقصان ہے۔
مقتول کے بھائی ارحم سہیل نے مزید بتایا کہ جب واقعہ پیش آیا اس وقت میں گھر میں موجود نہیں تھا، مجھے میری والدہ نے فون کرکے اطلاع دی تھی کہ بھائی کو گولی لگی ہے اور وہ ہسپتال میں ہے، میں فوراً ہسپتال پہنچا اور پھر جہانگیر کو آغا خان ہسپتال لے گئے جہاں وہ دم توڑ گیا۔’
مقتول جہانگیر سہیل کی نمازجنازہ مسجد میں ادا کی گئی جہاں جماعت اسلامی کراچی کے سربراہ حافظ نعیم الرحمٰن نے بھی شرکت کی، مقتول کو مقامی قبرستان میں دفنا دیا گیا۔
متحدہ قومی مومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان نے واقعے کے حوالے سے بیان جاری کیا اور وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور انسپیکٹر جنرل پولیس سے علاقے کے ڈی ایس پی اور ایس ایچ او کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شہر کو مجرموں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔
تاہم واقعے کا مقدمہ سرسید ٹاؤن پولیس اسٹیشن میں تعزیزات پاکستان کی دفعہ 302، 393 اقر 34 کے تحت درج کرلیا گیا ہے۔