چیئرمین پاکستان ڈس ایبل فائونڈیشن شاہد میمن نے صدر مملکت، وزیراعظم، چیف جسٹس آف سپریم کورٹ، اسپیکر قومی اسمبلی اور چئیر مین سینٹ کو یادداشت پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ معذوروں کے تسلیم شدہ حقوق ومراعات نیز بنیادی ضروریات و تقاضوں پر بقدر حیثیت ومناسب توجہ دینا اور اقدام کرنا، ملک کی اعلیٰ ترین مقتدر شخصیات کی آئینی،قانونی مناصب و اخلاقی ذمہ داری ہے
کسی آئینی شق یا ترمیم نے اگر کوئی خلا پیدا کردیا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہونا چاہیے کہ اس خلا سے متعلقہ آبادی کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے نیز اشک شوئی اور ہمدردی کے طور پر بہلاوے کے اقدامات کئے جائیں جو یقیناً مستقل مداوا بھی نہیں ہے اور اتنی بڑی آبادی کے مسائل کا حل بھی نہیں ہے
الحمدللہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور معذوروں کی انتھک و مسلسل قومی و بین الاقوامی جدوجہد کے تحت عالمی ادارے اور حکومتیں معذوروں کو معاشرے کا یکساں شہری سمجھتے ہوئے اصولی طور پر اور دستاویزات میں برابری کی بنیاد پر حقوق و مراعات دے رہی ہیں ۔
الحمدللہ پاکستان میں بھی اس اعتبار سے صورتحال بہت بہتر بلکہ امید افزا ہے ۔ المیہ یہ ہے کہ معذوروں سے متعلق جو غیر صحت مندانہ رجحان رہا ہے اس کی وجہ سے اگر بطور ہمدردی و یگانگت انہیں یکساں شہری تسلیم بھی کر لیا جاتا ہے لیکن ان دم چھلوں کے ساتھ کہ یہ خصوصی ہیں یہ مختلف صلاحیتوں کے حامل انسان ہیں اور اسی نوع کے من پسند و خود ساختہ الفاظ سے جس میں معذوروں کی اپنی کوئی دلچسپی نہیں ہے خوش کرنے کی مثبت کوشش کی جاتی ہے لیکن عملاً یہ ہوتا ہے کہ آپ نابینا ہیں ، اپ کا بینک میں اکاؤنٹ نہیں کھل سکتا آپ خصوصی ہیں اس لیے آپ کو IT کے شعبے میں داخلہ نہیں مل سکتا ، آپ خصوصی ہیں اس لیے آپ عام لوگوں کے مقابلوں میں خصوصی دستاویزات پیش کریں جنکا حاصل کرنا نہ صرف محال بلکہ اکثر ناممکن ہوتا ہے اور بالفرض مل بھی جائیں تو مشکل اور مہنگی زندگی کے حامل یہ خصوصی لوگ اضافی بوجھ اور تقاضوں کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ اسی طرح ہر شعبہ زندگی میں عملاً طرز عمل مایوس کن ہے اور یہ رویہ ان مراعات و حقوق کے سلسلے میں بھی جو کہ تسلیم شدہ ہیں عمل درآمد کروانے والوں کا ہوتا ہے۔اس کی وجہ سے تسلیم شدہ حقوق و مراعات اور سو شیو اکنامک اسٹیٹس مسلسل تھپیڑوں کا شکار رہتا ہے اور معذوروں کو تھکا دینے والی لایعنی جدوجہد پر معمور و مجبور کر دیتا ہے ۔ رہی سہی کسر مرکز میں قومی سطح پر کوئی اتھارٹی یا مضبوط نظام کے نہ ہونے کی وجہ سے پوری ہوجاتی ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک جانب تو اٹھارویں ترمیم کے باوجود جس طرح ضروری شعبوں مثلاً صحت وغیرہ میں قومی اتھارٹی قائم کی گئی ہے اسی طرح معذوروں کے لیے بھی با اختیار قومی اتھارٹی جسے قانونی تحفظ حاصل ہو قائم کی جائے تاکہ متاثر معذورین ، ان کے ادارے یا ان سے وابستہ ، کار پردازوں کو ضرورت کی صورت میں مذکورہ اتھارٹی سے رجوع کرنے کی سہولت میسر ہو اور دوسری جانب منسلک یاد داشت مورخہ 19 اکتوبر 2022 کی روشنی میں حقوق و مراعات دینے پر مامور اتھارٹیز کی جانب سے زیادتی کی صورت میں قانونی چارہ جوئی اور تادیبی کاروائی کے لیے فوری اور باضابطہ قانون سازی کی جائے ۔
امید ہے کہ مذکورہ بالا گذارشات جو کہ سالہاسال کی ستم شعاریوں اور صبح، شام کے تھپیڑوں کے پس منظر میں زبان پر آئیں اور خامہ فرسائی کی صورت میں آپ تک پہنچیں ، آپ مقتدر ہستیوں کی توجہ اور تعاون، عملی اقدام کے باعث بنے گی۔