لیبیا کے مغربی علاقے میں مہاجرین کی دو کشتیوں کے حادثے میں پاکستانیوں سمیت کئی افراد جاں بحق ہوگئے اور 57 لاشیں نکال لی گئی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق حادثے میں بچ جانے والے مصر کے شہری باسام محمد نے بتایا کہ ایک کشتی میں 80 افراد سوار تھے جو یورپ جارہی تھی۔ان کا کہنا تھا کہ ایک خیال ہے کہ جب کشتی ڈوب رہی تھی لیکن ذمہ دار آدمی نے روکنے سے انکار کیا۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے کوئی سہارا ملنے تک جدوجہد جاری رکھی، وہ مناظر خوف ناک تھے اور چند افراد میرے سامنے پانی میں دم توڑ گئے۔کوسٹ گارڈ کے عہدیدار فتحی الزیانی نے بتایا کہ مشرقی طرابلس میں قرابولی سے 11 لاشیں، جس میں ایک بچے کی لاش بھی شامل تھی، مہاجرین پاکستان، شام، تیونس اور مصر سے تعلق رکھتے تھے۔
مغربی طرابلس میں موجود ہلال احمر کے ایک کارکن نے بتایا کہ انہوں نے گزشتہ 6 روز کے دوران ساحل سے 46 لاشیں نکالی ہیں اور وہ ایک کشتی میں موجود تمام افراد ’غیرقانونی مہاجرین‘ تھے۔رپورٹ کے مطابق سابراتھا ہلال احمر کی جانب سے آن لائن جاری کی گئی تصاویر میں ماسک اور گلوز پہنے امدادی کارکنوں کی جانب سے ٹرک پر رکھی ہوئی سیاہ بیگز میں لاشیں دیکھی جاسکتی ہیں۔
امدادی کارکن نے کہا کہ خدشہ ہے کہ آنے والے دنوں میں مزید لاشیں ساحل میں آئیں گی۔مہاجرین کے لیے کام کرنے والی بین الاقوامی تنظیم نے کہا کہ 2023 کے اوائل میں رواں ماہ 441 مہاجرین اور پناہ گزین ڈوب گئے ہیں جو شمالی افریقہ سے یورپ میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔
رپورٹ کے مطابق گزشتہ 6 برس کے دوران تین ماہ کے دورانیے میں سب سے زیادہ ہلاکتیں رواں برس ہوئی ہیں۔لیبیا 2011 میں نیٹو کی مدد سے اس وقت کے حکمران معمر قذافی کی حکومت کے خاتمے کے بعدغیرقانونی طور پر یورپ جانے کی کوشش کرنے والے افراد کا مرکز بن گیا تھا اور اس دوران ملک بدترین خانہ جنگی کا شکار ہوا تھا۔
اب لیبیا کی جگہ تیونس نے لی ہے جو یورپ جانے کی خواہش مند غیرقانون پناہ گزینوں کے لیے مقبول مقام بن چکا ہے۔رپورٹ کے مطابق اٹلی میں حکام نے گزشتہ دو روز کے دوران مرکزی بحیرہ روم میں 47 کشتیوں کو ڈوبنے سے بچالیا، جس میں ایک ہزار 600 مہاجرین سوار تھے اور انہیں لیمپیڈوسا کے جزیرہ میں منتقل کیا۔
اٹلی کی جانب سے تیونس کو معاشی اور سیاسی اصلاحات کے بدلے رقم کی پیش کش کی گئی تھی کیونکہ یورپی یونین کے وزیرخارجہ نے تیونس میں بڑھتےہوئے عدم استحکام کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا تھا۔