وفاقی وزیر توانائی خرم دستگیر نے کہا ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) اور پاکستانی حکام کے درمیان اسٹاف لیول معاہدہ نہیں ہوتا تو پاکستان کا چین پر انحصار بڑھے گا۔
نجی ٹی وی چینل پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے وزیر توانائی خرم دستگیر نے کہا کہ میری نظر میں تمام ٹیکنیکل شرائط کے باوجود آئی ایم ایف سے اسٹاف لیول معاہدہ نہ ہونے کی وجوہات جیوپولیٹیکل ہیں۔
خرد دستگیر نے کہا کہ مغربی طاقتوں نے یہ دیکھنا ہےکہ اگر معاہدہ نہیں ہوتا تو پاکستان کا چین پرانحصار بڑھے گا، معاہدہ نہ ہونے کے نتائج بھی جیو پولیٹیکل ہوں گے۔
وفاقی وزیر توانائی خرم دستگیر نے کہا کہ مغربی ممالک میں تو ایک سال سے یہ پیش گوئیاں جاری ہیں کہ پاکستان ڈیفالٹ کر چکا ہے یا عنقریب کر جائے گا لیکن آج تک ایک بین الاقومی ادائیگی میں ایک گھنٹے کی بھی تاخیر نہیں کی بلکہ کچھ ادائیگیاں تو وقت سے پہلے کر دی ہیں۔
خرم دستگیر کا کہنا تھا کہ اب ہم معاشی استحکام کی جانب بڑھ رہے ہیں۔
ان سے پوچھا گیا کہ اگر آئی ایم ایف کے ساتھ اسٹاف لیول کا معاہدہ نہیں ہوتا تو حکومت کس طرح اگلا بجٹ پیش کرسکے گی؟ اور کیا آئی ایم ایف کا معاملہ حکومت کے لیے تشویش کا باعث ہے؟ جس پر وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ اسٹاف کی سطح کے معاہدے پر دستخط میں ناکامی سے پاکستان کا انحصار چین کی طرف مزید بڑھ جائے گا، امریکا اور مغربی طاقتوں کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے۔
انہوں نے بتایا کہ تمام تکنیکی پیشگی شرائط پوری کرنے کے باوجود اگر اسٹاف لیول کا معاہدہ نہیں ہو پارہا تو میرے خیال میں یہ جیو پالیٹیکل صورتحال کی وجہ سے ہے، تاہم اس حوالے سے وزیر خزانہ بہتر بتاسکتے ہیں۔
وزیر توانائی نے مزید کہا کہ عالمی سطح پر آئل کی ٹرانزیکشن اب آہستہ آہستہ ڈالر سے دیگر کرنسیوں بالخصوص چینی یان پر منتقل ہونے کا رجحان ہے۔
وزیر توانائی نے کہا کہ اگر پاکستان اسٹاف لیول معاہدے کو مکمل کرنے سے قاصر رہا تو پاکستان چین یا دیگر دوست ممالک کی مدد سے اپنے تمام مالیاتی وعدوں کو پورا کرے گا اور ملک اب بھی حالات کے پیش نظر عوام کی بھلائی کے لیے ممکن بجٹ پیش کوشش کرے گا۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا پاکستان دیوالیہ ہونے جا رہا ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ ماہرین ایک سال سے پاکستان کے دیوالیہ ہونے کی پیشن گوئیاں کر رہے ہیں۔
وزیر توانائی نے مزید کہا کہ پاکستان نے ایک بھی ادائیگی میں تاخیر نہیں کی اور مشکل ترین حالات سے گزر کر بھی آہستہ ہی صحی لیکن معاشی استحکام کی طرف بڑھ رہا ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان نے 2019 میں آئی ایم ایف سے 6.5 ارب ڈالر قرض لینے کا معاہدہ کیا تھا، تاہم آئی ایم ایف کی طرف سے مقرر کردہ کچھ شرائط کو پورا کرنے میں حکومت کی ناکامی کی وجہ سے پروگرام کے نویں جائزے کے تحت 1.2 ارب ڈالر کی قسط جاری کرنے کا عمل اکتوبر 2020 سے تاخیر کا شکار ہے۔
ادھر توانائی کی بڑھتی قیمتوں اور خوراک کی آسمان کو چھونے والی قیمتوں کی وجہ سے اپریل میں مہنگائی کی شرح 36.4 فیصد کے ساتھ بلند ترین سطح تک پہنچ گئی ہے۔ وزارت خزانہ نے تخمینہ لگایا ہے کہ روپے کی قدر میں کمی اشیا کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے باعث مہنگائی کی شرح 36 سے 38 فیصد کے درمیان رہے گی۔
درین اثنا پاکستان کے زرے مبادلہ کے ذخائر 4.46 ارب ڈالر کی کم سطح پر رہ گئے ہیں۔