وزیر مملکت برائے ہیلتھ سروسز ریگولیشنز اینڈ کوآرڈینیشن مہیش کمار ملانی نے کہا ہے کہ بچے پاکستان کا اثاثہ ہیں،انہیں تمباکو نوشی سے بچانا ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے، انہوں نے ان خیالات کا اظہار بچوں کے حقوق کیلئے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم سپارک کے زیر اہتمام مقامی ہوٹل میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا، مہیش کمار ملانی کا۔مزید کہنا تھا کہ تمباکو کے بنیادی خطرات سب کو معلوم ہیں لیکن یہ تحقیق ایک بہترین کاوش ہے کیونکہ یہ اشتہارات کے نقصانات کو بھی اجاگر کرے گی۔ مستقبل میں یہ تمباکو کے نقصانات کو کم کرنے میں ہماری مدد کرے گا۔ حکومت پاکستانی بچوں کے تحفظ اور بہبود کے لیے پرعزم ہے اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر کام کرے گی کہ ملک میں بچہ مخالف کوئی بھی اقدام نہیں کیا جائے گا۔اس موقع پر صحت عامہ سے منسلک سماجی کارکنوں نے حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ پاکستان کے مستقبل کو بچانے کے لیے غیر ضروری مضر صحت مصنوعات جیسے نکوٹین پاؤچز، ای سگریٹ اور گرم تمباکو کے آلات پر پابندی عائد کرے۔ یہ مطالبہ “بگ ٹوبیکو – ٹائنی ٹارگٹس” نامی سروے رپورٹ کی تقریب رونمائی میں اٹھایا گیا –
یہ سروے سوسائٹی فار پروٹیکشن آف دی رائٹس آف دی چائلڈ (سپارک) نے کا،کمپین فار ٹوبیکو فری کڈز (سی ٹی ایف کے) کے تعاون سے جدید تمباکو مصنوعات کی فروخت اور اشتہارات کے رجحانات کی جانچ کے لیے پاکستان کے 9 شہروں میں کیا گیا۔ سروے سے یہ بات سامنے آئی کہ جدید تمباکو مصنوعات نوجوانوں کی تعلیم و تفریح کے مقامات کے ارد گرد فروخت ہو رہی ہیں۔ یہ مصنوعات، خاص طور پر نیکوٹین پاؤچ، بچوں کی سطح نظر پر رکھے جاتے ہیں اور بچوں اور نوجوانوں کو راغب کرنے کے لیے ٹافیوں، بسکٹوں اور کھلونوں کے ساتھ رکھے جاتے ہیں۔ فروخت کنندگان صارفین کو راغب کرنے کے لیے فروخت کی تکنیکوں جیسے رعایتی مصنوعات، مفت سمپل، تحائف اور قراندازی کا بھی استعمال کرتے ہیں۔اس موقع پر پارلیمانی سیکرٹری برائے ہیلتھ سروسز ریگولیشنز اینڈ کوآرڈینیشن ڈاکٹر شازیہ صوبیہ سومرو نے اس سروے کے انعقاد پر سپارک کی تعریف کی۔ انہوں نے کہا کہ تمباکو پاکستانی بچوں کو لاحق ایک سنگین خطرہ ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ سستی اور آسانی کی وجہ سے پاکستان میں روزانہ تقریباً 1200 بچے سگریٹ نوشی شروع کر دیتے ہیں۔ ہم مزید بچوں کو ان نئی مصنوعات کے عادی ہونے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ پاکستان کی تمباکو کنٹرول قانون سازی کا مسلسل جائزہ لینے اور بہتر کرنے کے ساتھ ، تشہیر پر پابندی لگانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ میونسپل حکام کو تمباکو فروشوں اور خصوصی تمباکو کی دکانوں کو لائسنس دینا چاہئے جہاں صرف تمباکو کی مصنوعات فروخت ہوتی ہیں۔ اس سے بچوں اور غیر استعمال کنندگان کو کی گئی تمباکو کی مصنوعات کی نمائش میں کمی آئے گی جو اکثر ایسے اسٹورز پر نہیں جا تے۔سینیٹر ثناء جمالی نے کہا کہ اس تحقیق سے حکومت کو تمباکو کی اختراعی مصنوعات کے خطرات کو پہچاننے میں مدد ملے گی ۔ حکومت کو نشہ آور نکوٹین مصنوعات پر پابندی لگانی چاہیے اور پاکستان کی تمباکو کنٹرول قانون سازی کو بھی مضبوط کرنا چاہیے، جس میں نشہ آور نکوٹین مصنوعات کی ہر قسم کی تشہیر پر پابندی عائد کی جائے۔ تمباکو کی صنعت نے پہلے ہی یہ دعویٰ کر کے حکومت کو گمراہ کیا ہے کہ ای سگریٹ اور نیکوٹین پاؤچ کم نقصان دہ ہیں اور صرف تمباکو نوشی کرنے والوں کے لیے جو چھوڑنا چاہتے ہیں۔ تاہم، ان مصنوعات کو کھلے عام آن لائن فروغ دیا جاتا ہے اور نوجوان اور نئے صارفین کو فروخت کیا جاتا ہے۔اسپارک کے پروگرام منیجر خلیل احمد ڈوگر نے بتایا کہ ٹنی ٹارگٹ سروے میں اسلام آباد، کراچی، لاہور، پشاور، فیصل آباد، راولپنڈی، ملتان، بہاولپور اور حیدرآباد میں کیا گیا۔ سروے کرنے والوں نے اسکولوں، یونیورسٹیوں، ہاسٹلز، کھیل کے میدان اور پارکس، سینما گھروں، شاپنگ مالز، انڈور گیمنگ / تفریحی مرکز اور ریستوراں کے 100 میٹر کے دائرے میں کام کرنے والے دکانداروں سے ڈیٹا اکٹھا کیا۔ تقریب میں اراکین پارلیمنٹ، سول سوسائٹی کے اراکین، صحت کے کارکنوں، صحافیوں اور نوجوانوں نے شرکت کی، جنہوں نے سپارک کی کوششوں کو سراہا اور پاکستان کو تمباکو سے پاک بنانے کے مقصد کی حمایت کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔