چین کے صدر شی جن پنگ نے 100 چینی کمپنیوں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی ہدایت کی ہے۔ چین پاکستان اکنامک کوریڈور (سی پیک) پاکستان کے لیے گیم چینجر منصوبہ ہے جس سے صحیح طور پر استفادہ نہ کرسکنے پر تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گا۔ ہم پاکستان کے قیام کی 75 ویں سالگرہ منا رہے ہیں، مگر اپنے اہداف سے بہت دور ہیں۔ ان خیالات کا اظہار وفاقی وزیر منصوبہ بندی، ترقی اور خصوصی اقدامات پروفیسر احسن اقبال نے اسلام آباد کے مقامی ہوٹل میں منعقدہ پاکستان کے سب سے بڑے کارپوریٹ ایونٹ لیڈرز اِن اسلام آباد بزنس سمٹ 2023 (ایل آئی بی ایس 2023) کا چھٹے ایڈیشن افتتاحی روز خطاب کرتے ہوئے کیا۔ ”The Big Rethink” کے موضوع کے تحت دو روزہ سمٹ میں 55 سے زائد ملکی اور غیرملکی مندبین شرکت کررہے ہیں۔ نٹ شیل گروپ اور مارٹن ڈاؤ گروپ اوورسیز انویسٹرز چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (او آئی سی سی آئی) اور یونٹی فوڈز لمیٹڈ (یو ایف ایل) کی اسٹریٹجک پارٹنر شپ میں مشترکہ طور پر سمٹ کے میزبان ہیں۔
احسن اقبال نے کہا کہ سی پیک میں پاکستان کے لیے بہت سے مواقع ہیں، تاہم مہنگے قرضوں اور رشوت کے الزامات لگا کر سی پیک کو اسکینڈلائزڈ کردیا گیا، جس کے بعد چینی کمپنیاں پاکستان سے جانا شروع ہوگئیں۔ پاکستان نے 1960کی دہائی میں پہلا موقع گنوایا جب ہم آئندہ کا جاپان کہلاتے تھے مگر 1965 کی جنگ کے بعد آگے نہ بڑھ سکے۔ پاکستان کے پاس دوسرا موقع 1991 میں آیا، جب ہم نے سب سے پہلے معاشی اصلاحات جنوبی ایشیا میں متعارف کرائیں اور پاکستانی معیشت کو لبرالائز اور ڈی ریگولیٹڈ کیا اور نجکاری کا اپنایا۔ لیکن 1990کی دہائی میں اقتدار کی میوزیکل چیئر کی وجہ سے ہم اصلاحات میں پیچھے رہ گئے۔ سی پیک نے پاکستان کو تیسرا موقع فراہم کیا ہے۔ اس وقت پاکستان جہاں کھڑا ہے۔ کوئی ایک لیڈر، کوئی ایک پارٹی یا کوئی ایک ادارہ یہ کہے کہ پاکستان کو اس دلدل سے نکال سکتا ہے تو اس کو سٹی اسکین کرانا چاہیے۔ پاکستان کو اتحاد اور مشترکہ حل سے ان مشکل حالات سے نکالا جاسکتا ہے۔ ہمیں آئندہ 25 سال کا سوچنا ہوگا۔ وفاقی وزیر منصوبہ بندی ترقی و خصوصی اقدامات نے کہا کہ پاکستان کو فائیو ایز پر کام کرنا ہوگا۔ اگلی حکومت جو بھی آئے، اگر اُس نے فائیو ایز پر کام کیا تو پاکستان ترقی کرے گا۔ پاکستان کے لئے پہلا ای ایکسپورٹ، دوسرا پالیسی، تیسرا ماحولیات، چوتھا توانائی اور پانچواں ای اکویلیٹی ہیے۔ ان پانچ ای پر عمل کر کے ہم اپنی معیشت کو بہتر بناسکتے ہیں۔ پاکستان 12 سے 13 سال میں 1000 ارب ڈالرز کی معیشت بن سکتا ہے، لیکن اُس کے لیے ہمیں 8 فیصد کی شرح سے ترقی کرنا ہوگی۔
وفاقی وزیر توانائی خرم دستگیر نے کہا کہ پاکستان کی ریاست اور معیشت عام آدمی کو نہیں اشرافیہ کو فائدہ پہنچا رہی ہے۔ یوکرین اور روس کی جنگ سے کوئلہ 400 فیصد مہنگا ہوا جس سے توانائی کے نظام کو دھچکا لگا۔تاہم بجلی کی پیداوار کے حوالے سے حکومت نے ایک بڑی ری تھنک کی ہے اور اب پاکستان میں بجلی کی پیداوار درآمدی ایندھن پر نہیں ہوگی۔ درآمدی کوئلہ، آر ایل این جی اور تیل کو بجلی کی پیداوار سے باہر کرنا ہوگا۔ ہمارے پاس شمسی اور ونڈ انرجی توانائی کے متبادل ذرائع ہیں۔ انہوں نے کہا کہ روپے کی قدرمیں تیزی سے کمی کے باوجود ستمبر 2022 کے بعد سے بجلی کی قیمت میں اضافہ نہیں کیا گیا، جس کی وجہ تھر کول سے بجلی کی پیداوار ہے۔ پاکستان کو مہنگے بجلی پلانٹس کو ختم کرنا ہوگا۔ ہمیں یہ ری تھنک کرنا ہوگا کہ دنیا کے لیے اپنی معیشت کو کس طرح کھولیں۔
قبل ازیں نٹ شیل گروپ کے بانی اور سی ای او محمد اظفر احسن کے خطبہ استقبالیہ میں کہا کہ ہر پاکستانی سیکٹر میں سرمایہ کاری کی گنجائش ہے۔ سہولت دیے بغیر ملک میں سرمایہ کاری نہیں بڑھائی جاسکتی۔ ملک کو طویل مدتی سرمایہ کاری، صحت، ماحولیات، تعلیم، عدلیہ، اور بیوکریسی کی تنظیم نو کرنا ہوگی۔چیئرمین مارٹن ڈاؤ گروپ علی اکھائی کا کہنا تھا کہ ہم ایک ایسے دور میں رہ رہے ہیں جس میں بہت سے مواقع ہیں۔ ایلون مسک نے اپنی سوچ سے الیکٹرک وہیکل کے ذریعے آٹو انڈسٹری کو تبدیل کیا۔ سعودی عرب کے وزیر اعظم اور ولی عہد محمد بن سلمان نے وژن 2030 نے دنیا کو حیران کردیا ہے۔ محمد بن سلمان کا نیوم شہر کا منصوبہ مستقبل کے شہروں کی عکاسی کررہا ہے، جس کے اثرات سعودی سے نکل کر دنیا بھر میں پھیل رہے ہیں۔ صدر اور سی ای او اینگرو پاکستان غیاث خان نے کہا کہ سرمایہ کار پالیسی فقدان کے باعث پاکستان میں سرمایہ کاری کرتے ہوئے کتراتے ہیں۔ پاکستان کے لیے سب سے بڑا چیلنج توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتیں ہیں جس کا حل نکالنا ہوگا۔ ہمیں تھرکول منصوبے پر زیادہ سے زیادہ توجہ دینی چاہیے تاکہ قیمتوں میں کمی واقع ہو۔ فیصل بینک کے صدر اور سی ای او یوسف حسین نے کہا کہ پاکستان میں سودی لین دین کے خاتمے کے حوالے سے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے پر عملدرآمد ہورہا ہے۔ اسلامی بینکاری ایک مکمل اور جامع مالیاتی نظام ہے، جو مذہبی بنیاد پر قائم نہیں بلکہ اس پر اسکالرز اور ریگولیٹری باڈیز نے بہت کام کیا ہے۔ اسلامی بینکاری میں عالمی سطح پر مروجہ اخلاقی اقدار، مارکیٹ طریقہ کار کے مطابق معاشی لین دین ہو، شفافیت اور سماجی ذمہ داری کا خیال رکھا جاتا ہے۔
کے۔ الیکٹرک کے چیف ایگزیکٹو مونس عبداللہ علوی نے کہا کہ توانائی کا شعبہ پاکستانی معیشت کو نیچے لے جاسکتا ہے۔ اگر ہم نے کے۔ الیکٹرک اور پورے ملک کے لیے ری تھنک نہیں کیا تو سرکلر ڈیٹ میں اضافہ اور ڈسکوز کے منافع میں کمی ہوگی۔ کے۔ الیکٹرک نے مالی سال کے پہلے 9 ماہ میں 40 ارب روپے کا نقصان اٹھایا، مگر یہ نقصان حکومت کے سرکلر ڈیٹ میں شامل نہیں ہے۔ اگر کسی اور ڈسٹری بیوشن کمپنی نے نقصان کیا ہوتا تو وہ سرکلر ڈیٹ میں شامل ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ توانائی یا بجلی کے شعبے میں قومی سطح پر نجکاری کرنا ہوگی۔ سرمایہ کار کو لائیں، اس کو ایسا ٹیرف دیں جوکہ قابل عمل ہو۔ کے۔ الیکٹرک پر اجارہ داری کا الزام لگایا جاتا تھا، اس لیے ہم نے نان ایسکلوزوو لائسنس کی درخواست دی ہے۔اب مارکیٹ کھل گئی ہے۔ کوئی بھی کراچی میں آکر بجلی فروخت کرسکتا ہے اور کے، الیکٹرک بھی پاکستان میں کہیں بھی بجلی فروخت کرسکتا ہے۔ کے۔ الیکٹرک کا ہدف 30 فیصد توانائی کو متبادل توانائی پر منتقل کرنا ہے اور سال 2030 تک کے۔ الیکٹرک 1100 میگاواٹ متبادل توانائی کے حصول پر کام کرے گا۔ کے۔ الیکٹرک 484 ارب روپے سرمایہ کاری کا منصوبہ نیپرا میں جمع کرایا ہے۔ ڈسٹری بیوشن اورٹرانسمیشن نیٹ ورک میں بڑی سرمایہ کاری کے لیے مقامی سطح پر تیار ہونے والے آلات کو ترجیح میں شامل کیا گیا ہے۔ اگر کے۔ الیکٹرک مقامی سطح پر تیار ہونے والے آلات کو استعمال کرے گی تو دیگر ڈسکوز بھی اس کو اپنائیں گے۔ جس سے جی ڈی پی میں اضافہ ہوگا۔
سی ای او انفرا ضامن پاکستان ماہین رحمان نے کہا کہ غیرملکی سرمایہ عدم استحکام کے باعث پاکستان میں سرمایہ کاری کرتے ہوئے گھبراتے ہیں۔ پاکستان بینک ایسوسی ایشن اور پاکستان بزنس کونسل کے سربراہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ اگر بینکس حکومت کو قرضہ دینا بند کردیں تو حکومت تنخواہ تک نہ دے سکے۔ بینکاری صنعت کو زراعت اور ایس ایم ای پر توجہ دینا ہوگی۔ سابق مشیر برائے سکیورٹی ڈاکٹر معید یوسف نے کہا کہ چین اور امریکا کے درمیان کشیدگی سے ایک طوفان پاکستان کی جانب بڑھ رہا ہے۔ پاکستان کو اپنی پوزیشن کو اس طرح رکھنا ہوگا کہ جس میں دونوں توازن رکھا جاسکے۔ سابق وفاقی وزیر اور سابق گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر عشرت حسین کا کہنا تھا کہ1947 سے 1990 کے دوران اندرونی و بیرونی دھچکوں کے باوجود پاکستان کی ترقی کی رفتار 6 سے 6.5 فیصد کے درمیان رہی، تاہم 1990 سے 2015 کے درمیان پاکستان گورننس اور اداروں کی تباہی کی وجہ سے پیچھے رہ گیا۔ سال 2000 میں بھارت جب کہ 2015 میں بنگلا دیش ہم سے آگے نکل گیا۔
انگلش بسکٹ مینوفیکچررز (پرائیویٹ) لمیٹڈ کی سی ای او اور منیجنگ ڈائریکٹر ڈاکٹر زیلف منیر نے کہا کہ ہم اس وقت جس صورتحال سے دوچار ہیں اس کی وجہ اجتماعی ناکامی ہے، جس پر ہمیں ری تھنک کرنا ہوگا۔ پاکستان کا جی ڈی پی کا 0.29 فیصد ہے اور ملک ڈیفالٹ کی جانب جارہا ہے۔ ٹیلی نار پاکستان کے چیف ایگزیکٹو عرفان وہاب خان نے کہا کہ دنیا میں اس وقت جغرافیائی سیاست سپلائی چین اور ہمارے ملک میں میکرواکنامک ایشوز ہیں۔ اب کاروبار کو تبدیلی کے لیے متوازن ہوگا۔ منیجنگ پارٹنر مڈل ایسٹ، سافٹ بینک انویسٹمنٹ ایڈوائزر فیصل رحمان نے کہا کہ سافٹ بینک دنیا بھر میں 170 ارب ڈالرزکی سرمایہ کاری کی ہے اور 450 کمپنیوں میں سرمایہ لگایا ہے۔ آج کی دنیا میں ڈی گلوبلائزیشن ہورہی ہے اور اپنی معیشت کو تحفظ دینے پر غور ہورہا ہے، جس کی وجہ سے مستقبل کی جنریشن کو ملازمت دینا اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ گروپ چیف ایگزیکٹو آفیسر ویون کان ٹیرزی اوگلو نے کہا کہ مشکلات کے باوجود پاکستان کو امید نہیں چھوڑنی چاہیے۔ خوشحالی پیدا کرنے اور غربت کے خاتمے کے لیے پاکستان کو اپنی پیداواری صلاحیت کو بڑھانا ہوگا۔
سسٹم لمیٹڈ کے چیف ایگزیکٹو آفیسر آصف پیر کا کہنا تھا کہ پاکستان میں مالیاتی صنعت میں گنجائش تھی، جس پر فن ٹیک اور دیگر مالیاتی مصنوعات سامنے آئیں۔ ہمیں کئی ٹیکنالوجیز نے متاثر کیا، اب ہمیں ترقی کرنے کے لیے فریکل انفرااسٹرکچر کی ضرورت نہیں۔ منیجنگ ڈائریکٹر موڈلیز پاکستان لمیٹڈ سمیع اے واحد نے کہا کہ سال 2022 میں دنیا میں 20 فیصد اشیاء کی آن لائن خریداری کی گئی، جس کی مالیت 5 ٹریلین ڈالرز ہے۔ چیف ایگزیکٹو آفیسر پروٹیکٹر اینڈگیمبل پاکستان عادل فرحت کا کہنا تھا کہ ہر صنعت میں ڈیٹا فیصلہ سازی کو متاثر کررہا ہے۔ اب کاروبار کے لیے ڈیٹا ایک خام مال کے طور پر کام کرتا ہے۔ ریجنل منیجنگ ڈائریکٹر اکیومین ڈاکٹر عائشہ کے خان نے کہا کہ پاکستان میں معیشت ترقی نہیں کررہی، لیکن آبادی بڑھ رہی ہے جس کی وجہ سے غذائی قلت کا سامنا ہے۔ فرانس کے سمیر انیکولس گیلی نے کہا کہ پاکستان اور فرانس کے درمیان باہمی تجارت کے بہت سے مواقع ہیں۔ فرانسیسی کمپنیاں متبادل توانائی، شہری ترقی، غذائی اجناس میں معاونت کرسکتی ہیں۔