پاکستان کے سب سے بڑے کارپوریٹ سمٹ لیڈرز اِن اسلام آباد بزنس سمٹ 2023 (ایل آئی آئی بی ایس 2023) کا چھٹا ایڈیشن ختم ہوگیا۔ ”The Big Rethink” کے موضوع کے تحت منعقدہ دو روزہ سمٹ میں 50 سے زائد ملکی و غیرملکی ماہرین نے مختلف موضوعات پر اظہار خیال کیا۔ نٹ شیل گروپ اور مارٹن ڈاؤ گروپ نے اوورسیز انویسٹرز چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (او آئی سی سی آئی) اور یونٹی فوڈز لمیٹڈ (یو ایف ایل) کی اسٹریٹجک پارٹنر شپ میں مشترکہ طور پر سمٹ کی میزبانی کی۔
سمٹ کے اختتامی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر موسمیاتی تبدیلی شیریں رحمان نے کہا کہ ترقی یافتہ ممالک موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے بہت کچھ کررہے ہیں۔ جون میں فرانس میں ہونے والی کانفرنس اسی لیے ہورہی ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے اس لیے بنائے گئے کہ ترقی پذیر ملکوں کی معاونت کریں۔ فرانس میں ہونے والی کانفرنس عالمی مالیاتی نظام کی تنظیم نو کرے گی، جس میں کلائمنٹ فنانس بھی شامل ہے۔ پاکستان نے کوپ 27 میں ایک موقع حاصل کیا اور ایک گروپ کو متحدہ کیا ہے۔ پاکستان ماحولیاتی آلودگی کے اہداف کو حاصل کر لے گا۔ موجودہ مالیاتی نظام کلائمنٹ فنانس اہداف کے لئے موضوع نہیں ہے۔ اور یہ کام نہیں کرسکے گا، کیونکہ ماحولیاتی تبدیلی کے لیے ہزاروں ارب ڈالرز کی ضرورت ہے۔ بھارت ہمارے پڑوس میں ایک بڑا آلودگی پھیلانے والا ملک ہے۔ پلاسٹک کو عالمی سطح پر ختم کیا جارہا ہے، لیکن ہمارے یہاں پلاسٹک کا بہت زیادہ استعمال ہے۔
پاکستان سالانہ دو کے ٹو کے مساوی پلاسٹک کا کچرا پیدا کرتا ہے۔ حکومتیں آلودگی نہیں پھیلا رہی ہیں۔ بڑی صنعتیں اور کمپنیاں سب سے زیادہ آلودگی پھیلانے والی ہیں۔ ان صنعتوں کو معاونت کی جائے جو کہ اپنے کاروبار کو گرین انرجی پر منتقل کررہے ہیں۔ پاکستان کا فضائی آلودگی میں حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے مگر یہاں ہم 45 ڈگری کا درجہ حرارت برداشت کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو شدید ماحولیاتی چیلنجز کا سامنا ہے، جس سے نمٹنے کے لیے فوری اقدامات کرنا ہوں گے۔
پالیسی فریم ورک تیار اور قومی سطح پر ایک منصوبہ بناکر اس پر عملدرآمد کرنا ہوگا۔ بڑے ڈیمز کا دور ختم ہوگیا۔پاکستان کو پانی کے ذخائر کی ضرورت ہے۔ ہم درجہ حرارت میں 2ڈگری سینٹی گریڈ اضافے کی طرف جارہے ہیں۔ جس سے گلیشیر پگھلنے کی رفتار میں اضافہ ہوگیا ہے۔ گلیشیر پگھلتے ہیں تو وہ پلوں اور جو کچھ ان کے راستے میں آتا ہے اس کو بہا کر لے جاتے ہیں۔سیاچن گلیشیر بہت تیزی سے پگھل رہا ہے۔ پانی کی کمی فی الحال نہیں ہو گی، ضرورت اس بات کی ہے کہ پانی کے استعمال کو کنٹرول کیا جائے۔قحط سالی اور سیلاب ماحولیاتی تبدیلی کی بہترین مثال ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی سے پاکستان کو شدید نقصان پہنچا ہے، لیکن ہمارے طرز زندگی تبدیلی نہیں آرہی۔ پاکستان میں اب بھی لوگ گھروں میں گاڑیاں دھونے میں ہزاروں گیلن پانی ضائع کر دیتے ہیں۔پاکستان فی کس پانی کی کھپت کی قلت کے حساب سے دنیا میں چوتھے نمبر پر ہے۔
سابق چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل زبیر محمود حیات نے کہا کہ بیانیہ میں تبدیلی کرنا مشکل کام ہے۔ اس کا اسپکٹرم بہت طویل اور پیچیدہ ہوتا ہے۔ بیانیہ ارتقائی اور انقلابی ہوسکتا ہے، جس کے ذریعے معاشرے اور قوم دونوں کا ارتقاء ہوتا ہے۔ انقلابی بیانیہ قلیل مدتی جبکہ ارتقائی بیانیہ طویل مدتی ہوتا ہے۔ ریاست کا بیانیہ ایک نئی چیز ہے۔ بیانیہ میں نفرت کی علامت ہٹلر تھا، جب کہ انسانیت کی علامت عبدالستار ایدھی۔ ایک بیانیہ محبت کا ہے، جس میں رومیو جولیٹ، سسی پنوں اور ہیر رانجھا آتے ہیں۔ بیانیے کو کوئی بھی فرد ہائی جیک کرسکتا ہے اور مجھے جس کی فکر ہے وہ جعلی بیانیے کی ہے۔ اب بیانیہ پر ٹیکنالوجی کے اثرات بھی پڑ رہے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے ذریعے تیزی سے زیادہ افراد تک بیانیہ پہنچایا جاسکتا ہے۔ انسان اور مشین میں فرق ختم کیا جارہا ہے۔ انسان کی سوچ کو ڈی کوڈ کرنے والی مشین بنائی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سعودی عرب میں تیزی سے تبدیلیاں ہورہی ہیں۔ سعودی عرب میں خواتین کے شمولیت ہر شعبے میں بیانیہ تبدیل کررہی ہے۔ پاکستان کو ایک تبدیل بیانیے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے نئے بیانیے کی اونرشپ حکومتی، ادارتی اور انفرادی سطح پر لینا ہوگی۔ اس بیانیہ میں ٹیکنالوجی، ڈیجیٹلائزیشن، انویشن اور خواتین کے حقوق کو شامل کیا جانا چاہیے۔
چیئرمین نیپرا توصیف ایچ فاروقی نے کہا کہ پاکستان میں 65 فیصد بجلی کی پیداوار درآمدی ایندھن پر ہوتی ہے، مگر اب کوئی بھی نیا منصوبہ درآمدی ایندھن پر نہیں لگایا جائے گا۔ پہلے پاکستان میں بجلی کی طلب اور رسد کے حوالے سے منصوبہ بندی نہیں کی جاتی تھی، تاہم اب ہم ہر سال طلب اور رسد کے حوالے سے جائزہ لیتے ہیں۔ بجلی کے شعبے میں ہول سیل مارکیٹ بنارہے ہیں، جس میں بجلی کی خرید و فروخت ہوگی۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں 15 ملین افراد بغیر بجلی کے رہ رہے ہیں۔ اس کے لیے مائیکرو گرڈ کا تصور دیا ہے کہ نجی شعبہ انہیں بجلی فراہم کرے گا۔ پاور ووتھ سیفٹی کے تحت نظام بہتر ہوا۔ کراچی میں 2 لاکھ سے زائد پولز کو ارتھ کیا گیا، اسی وجہ سے 8 گنا اضافی بارش کے باوجود کوئی فرد کرنٹ لگنے سے جاں بحق نہیں ہوا۔ سابق وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے کہا کہ پاکستان میں 20 ملین سے زائد بچے اسکول نہیں جاتے، جن میں اکثریت لڑکیوں کی ہے، جنہیں اسکول تک رسائی بھی نہیں ملتی۔ غربت کی وجہ سے زیادہ تر بچے دوسری جماعت کے بعد تعلیم جاری ہی نہیں رکھ پاتے۔ طبقاتی نظام تعلیم کی وجہ سے معاشرے میں تعلیم کے حوالے سے ہم آہنگی نہیں۔ ہمیں تعلیمی قابلیت کے ساتھ مہارت نکھارنے پر بھی توجہ دینی چاہیے۔ پاکستان کے بہت سے مسائل ہیں، لیکن تعلیم، خاص طور پر لڑکیوں کی تعلیم پر توجہ دینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ لڑکیوں کی تعلیم سے پاکستان کو تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کو کنٹرول کرنے میں مدد ملے گی۔ حکومت کو تعلیم کے حوالے سے ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کرنی چاہیے، خواتین کی تعلیم کے لیے ٹیکنالوجی سے مدد لی جاسکتی ہے۔
چیف ایگزیکٹو آفیسر این بی پی فنڈز ڈاکٹر امجد وحید کے کہا کہ اگر سرکاری اسکول بچوں کو معیاری تعلیم نہیں دے سکتے تو کیش واؤچر دیا جائے تاکہ بچوں کو نجی اسکولوں میں تعلیم دلوائی جاسکے۔ ہم جی ڈی پی کا صرف 1.7 فیصد تعلیم پر خرچ کرتے ہیں جب کہ انڈیا میں 20 سے 22 فیصد تعلیمی بجٹ ہے۔ ہمیں اس اہم مسئلے سے نمٹنے کے لیے تعلیم نظام کو ازسرنو مرتب کرنا ہوگا۔ آگاہی اور لیکچررکی بانی و صدر پریوش چوہدری نے کہا کہ آج کے بچے ٹیکنالوجی میں بہت آگے اور ٹیکنالوجی کا بہترین استعمال کر سکتے ہیں۔ آج کی نسل کا سوچنے کا طریقہ کار بالکل مختلف ہے۔ ہمارے مقابلے میں غریب ممالک کا تعلیمی نظام اچھا ہے، کیونکہ وہ اپنا تعلیمی بجٹ زیادہ رکھتے ہیں، تاہم پاکستان میں بدقسمتی سے تعلیم کا بجٹ نہ ہونے کے برابر ہے۔ بانی اور جنرل پارٹنر ٹیم اَپ وینچرز زوہیر خالق کا کہنا تھا کہ پاکستان میں بہت سے مسائل اور مشکلات ہیں، لیکن اس کے باوجود نوجوان اسٹارٹ اَپس بنا رہے ہیں۔ پاکستان مین فن ٹیک، ای ٹیک، ای لاجسٹک اور دیگر شعبہ جات میں کام ہورہا ہے۔
صدر اور سی ای او یو مائیکرو فنانس بینک لمیٹڈکبیر نقوی نے کہا کہ پاکستان میں ہر شعبے میں روڈ پرابلمز ہیں۔ روڈ میپ ہونے کے ساتھ ساتھ سوشل پلیٹ فارمز پر بھی کام کرنا ضروری ہے۔ معاشرے میں آج بھی بنیادی ترقی نہ ہونے کے باعث کارروباری قرض کے حصول میں مشکلات ہیں۔ صدر اور سی ای او موبی لنک مائیکرو فنانس بینک لمیٹڈ غضنفر اعظم نے بتایا کہ پاکستان میں 100پاکستانیوں میں سے صرف 12 کے بینک اکاؤنٹ ہیں۔ مائیکروفنانس بینکنگ کے ذریعے ہم آگے تو جا رہے ہیں لیکن اس میں مزید بہتری کے ساتھ سہولت دینا ضروری ہے۔ بلاک چین وقت اہم ضرورت ہے۔ دنیا کے ساتھ چلنے کے لیے ہمیں بلاک چیک کو اپنانا ہوگا۔ منیجنگ ڈائریکٹر ٹی ایم سی عبد الحسیب نے کہا کہ پاکستان میں آئی ٹی سیکٹر میں بہت مواقع ہیں اور اس شعبے میں ملٹی نیشنل کمپنیاں بہت کام کررہی ہیں۔ کارپوریٹ سیکٹر کو تعلیم یافتہ نوجوانوں کو بھر پور مواقع فراہم کرنا چاہیے۔ سافٹ ویئر کے کام میں کسی سیٹ اَپ کی نہیں ٹیلنٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔
بانی اور سی ای او انوائس میٹ (یو اے ای) محمد سلمان انجم کے مطابق ٹیکنالوجی کے ذریعے انوائسز میں جعل سازی کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ یہ ٹیکنالوجی متحدہ عرب امارات اور پاکستان میں کام کررہی ہے۔ انوائس مینجمنٹ سسٹم کے لیے بلاک چین اور آرٹی فیشل انٹیلی جنس کو استعمال کیا جاتا ہے۔ انوائس جہاں جہاں جائے گی اس کا مکمل ریکارڈ رکھا جائے گا۔ اس انوائس کے ذریعے نہ صرف جعل سازی کا خاتمہ ہوگا بلکہ مالیاتی صنعت تک رسائی کا سبب بھی بنے گی۔ ایگزیکٹو چیئرمین کوہوب اینڈ پارٹنر سوائس ون کیپٹل جونی کیرنن نے کہا کہ پاکستان کی آئی ٹی انڈسٹری سے 6 لاکھ افراد منسلک ہیں اور یہ 3 ارب ڈالرز کا ریونیو کما رہی ہے۔ پاکستان کو آئی ٹی میں ویلیو ایڈیشن پر توجہ دینی چاہیے، یہ مشکل اور رسکی ہے لیکن مشکل کے بعد آسانی ہوتی ہے۔ جنرل پارٹنر SOSV، منیجنگ ڈائریکٹر اوربٹ اسٹارٹ اَپس آسکر راموس نے کہا کہ پاکستان میں اسٹارٹ اَپس کے لیے بہت مواقع ہیں۔ آج فن ٹیک تیزی سے ترقی کررہی ہے۔ ڈیجیٹل ادائیگی کی خدمات، آن لائن قرض، ویلتھ مینجمنٹ اور ریٹیل بینکاری فن ٹیک کے ذریعے فراہم کی جاسکتی ہے۔ ریجنل ڈائریکٹر ائیرٹیل افریقا مائیکل فولی نے کہا کہ فور جی اور فائیو جی کے حوالے سے پاکستانی ریگولیٹر کو جلد فیصلہ کرنا ہوگا۔ فائیو جی میں صرف مہنگے موبائل فونز نہیں، اس سے تیز انٹرنیٹ تک رسائی ہوگی۔ دنیا میں تیزی سے ڈیجیٹل کرنسی اور آن لائن ادائیگی کا عمل فروغ پارہا ہے۔ ویب تھری کے ذریعے انٹرنیٹ کی دنیا تبدیل ہوجائے گی۔
چیف ایگزیکٹو آفیسر بلاک چین فار آل جمی نگوین نے کہا کہ پاکستان میں تعلیمی مسائل کو ای لرننگ کے ذریعے حل کیا جاسکتا ہے۔ ڈیجیٹل ذرائع سے تعلیم حاصل کرنے کے نئے طریقے تلاش کرنا ہوں گے۔ بانی اور سی ای او، PXDX FZ LLC، یو اے ای ڈاکٹر ریحان التاجی نے کہا کہ پاکستان میں ٹیکنالوجی کے نظام کو صحیح طرح لاگو نہیں کیا جا رہا ہے۔ بلاک چین اس وقت دنیا میں سب سے کامیاب ٹیکنالوجی ہے اور پاکستان کو لازمی اسے اپنانا چاہیے۔بانی امول پروجیکٹس، مارکیٹ ڈیولپمنٹ، NEOM ڈیزائن اینڈ کنسٹرکشن مارک لنڈر کا کہنا تھا کہ پاکستان جرمن ٹیکنالوجی کے ساتھ منسلک ہے اور بہت سے شعبوں میں ان کی مصنوعات یہاں بنائی جاتی ہیں۔ جرمن پلاننگ کے تحت تمام افراد اپنا کام تقسیم کرلیتے ہیں، جس کی وجہ سے وقت سے پہلے ہی کام مکمل ہوجاتا ہے۔ اس سے وقت اور پیسے دونوں کی بچت ہوتی ہے۔منیجنگ ڈائریکٹر، اسٹریٹجی فوکس گروپ، USA اور UAE رون تھامس نے کہا کہ پرانے راستوں پر اب ترقی ممکن نہیں، ہمیں نئے راستوں کو اپنانا ہوگا۔ کارروبار میں جدت لانی ہے اور اپنے ذہن کو بھی بڑھانا ہوگا۔
چیف ایگزیکٹو اسٹریٹجک انگیجمنٹس نٹ شیل گروپ اور چیف آف ایئر اسٹاف پاکستان (2015-2018) ائیر چیف مارشل (ریٹائرڈ) سہیل امان نے کہا کہ 1987 میں پاکستان سب سے تیزی سے ترقی کرنے والی معیشت تھی، جو اعداد و شمار ہم نے بعد کے برسوں میں دیکھے وہ مایوس کن ہیں لیکن ہم ہمت نہ ہارنے والی قوم ہیں اور جلد ہی ترقی کی راہ پر گامزن ہوں گے۔ سیاسی استحکام کی اگربات کریں تو چین، روس، ہندوستان، ترکی اور بنگلا دیش میں ہر حکومت اپنے دوسرے یا تیسرے دور سے گزر رہی ہے۔ اسی لیے پاکستان میں بھی پالیسیوں کے تسلسل اور مستحکم حکومتوں کی ضرورت ہے۔