لاہور پولیس نے مختلف ملزمان کے خلاف ریپ کے 8 مقدمات درج کیے ہیں جنہوں نے متاثرین کو جبر، بلیک میلنگ کا استعمال کر کے اور اچھی تنخواہ کی نوکری کا لالچ دے کر جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا۔ریپ متاثرین میں اسٹاف نرس، گھریلو ملازمہ اور ایک کم سن لڑکی بھی شامل ہیں۔
رپورٹ کے مطابق خواتین اور لڑکیوں پر جنسی تشدد کے یہ واقعات گزشتہ 48 گھنٹوں کے دوران شہر کے مختلف علاقوں بشمول ڈیفنس، گرین ٹاؤن، سبزہ زار، نواں کوٹ اور رائیونڈ میں پولیس کے پاس رپورٹ ہوئے۔
متاثرین اور ان کے اہل خانہ کے مطابق مقدمات کے اندراج کے باوجود مشتبہ افراد ان پر شکایات واپس لینے کے لیے دباؤ ڈالنے کے لیے انہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔
کچھ رپورٹس کے مطابق کام کی جگہ پر جنسی تشدد اور ہراساں کیے جانے کے زیادہ واقعات کی وجہ سے پنجاب خاص طور پر ملازمت کرنے والی خواتین کے زندگی گزارنے کے لیے ایک مشکل صوبہ رہا ہے۔
تقریباً ایک سال قبل پنجاب کے اس وقت کے وزیر داخلہ عطا تارڑ نے خواتین اور بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے بڑھتے ہوئے واقعات کے درمیان ’ایمرجنسی‘ کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ صوبے بھر میں روزانہ تقریباً 4 سے 5 خواتین کی عصمت دری کی جارہی ہے۔
تاہم سابق وزیر کی جانب سے خطرے کی گھنٹی بجانے کے باوجود کام کرنے والی خواتین کے تحفظ کے حوالے سے صورتحال بہتر نہیں ہوئی۔
فیکٹری ایریا پولیس کی حدود میں پیش آئے ایک واقعے میں ایک شخص نے نجی ہسپتال کی اسٹاف نرس کو بار بار ریپ کیا اور پیسوں کے لیے بلیک میل بھی کیا۔
ملزم نے 6 ماہ قبل نرس کو بھاری تنخواہ کا لالچ دے کر غازی روڈ کے علاقے میں واقع ایک گھر میں ’مریض کی دیکھ بھال‘ کے بہانے لے گیا، جہاں اس نے نرس کو چائے میں شدید نشہ آور دوا ڈال کر پلادی اور اس کے بے ہوش ہوجانے کے بعد مبینہ طور پر اس کا ریپ کیا۔
خاتون نے پولیس کو مزید بتایا کہ ملزم نے اس گھناؤنے فعل کی ویڈیو بنائی اور دھمکی دی کہ اگر اس نے اس معاملے کی پولیس کو اطلاع دی تو وہ کلپس سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کر دے گا۔
شکایت گزار نے بتایا کہ ملزم مختلف مواقع پر بلیک میلنگ کے ذریعے اس سے بھتے کے طور پر تقریباً 3 لاکھ روپے کے طلائی زیور اور رقم بھی لی اور اسے خودکشی کرنے کے دہانے پر پہنچا دیا۔
تاہم ایک کزن کے مشورے پر متاثرہ خاتون نے معاملے کی اطلاع پولیس کو دی جس نے ملزم کے خلاف مقدمہ درج کر کے تفتیش شروع کر دی۔
اسی طرح ڈیفنس کے علاقے میں ایک شادی شدہ گھریلو ملازمہ نے پولیس کو بتایا کہ ایک ملزم نے اسے پُرکشش تنخواہ کے پیکج کے عوض ’نوکری‘ کا لالچ دے کر اسے ریپ کیا، اس حرکت کی ویڈیو بنائی اور پھر پیسے کے لیے بلیک میل کیا۔
متاثرہ خاتون نے بتایا کہ ریپ کے نتیجے میں وہ حاملہ ہوگئی اور یہ معاملہ جب اس کے شوہر کے علم میں آیا تو اس نے اسے چھوڑ دیا۔
پولیس نے ملزم کے خلاف مقدمہ درج کر لیا۔
ایک اور واقعے میں ایک ملزم مظفر گڑھ سے 14 سالہ لڑکی کو اغوا کر کے لاہور لے آیا اور اس کا مبینہ طور پر ریپ کردیا۔
علاوہ ازیں قائداعظم انڈسٹریل ایریا میں رینالہ خرد سے نوکری کی تلاش میں آنے والی لڑکی کو چند افراد نے گینگ ریپ کا نشانہ بنایا۔
لڑکی نے پولیس کو بتایا کہ ملزم اور اس کے دو ساتھیوں نے اس سے نوکری کا وعدہ کیا اور اسے ایک فلیٹ میں لے جا کر مبینہ طور پر ریپ کیا۔
اسی طرح سبزہ زار کے علاقے میں ایک ملزم نے لڑکی کو مبینہ طور پر ریپ نشانہ بنایا اور جنوبی چھاؤنی پولیس کی حدود میں ایک خاتون کے ساتھ گینگ ریپ کیا گیا۔
علاو ازیں گرین ٹاؤن کے علاقے میں ایک اور خاتون کو ملزم نے ریپ کا نشانہ بنا ڈالا۔