موجودہ دورحکومت میں پاکستان میں تیارہونے والی گاڑیوں کی پروڈکشن میں حیرت انگیز کمی کا انکشاف

موجودہ دورحکومت میں پاکستان میں تیارہونے والی گاڑیوں کی پروڈکشن میں حیرت انگیز کمی کا انکشاف۔سال 2018-19میں گاڑیوں کی پروڈکشن 2.89ملین جبکہ رواں سال جولائی سے اپریل تک پروڈکشن 1.3 ملین ریکارڈ ہوئی۔پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی ذیلی کمیٹی کا کنوینر سینیٹر سلیم مانڈوی والا کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں گاڑیاں بنانے والی کمپنیوں سے متعلق معاملہ زیر بحث آیا ،کنوینرسینیٹرسلیم مانڈوی والانے گاڑیاں بنانے والی کمپنیوں ٹیوٹا انڈس، سوزوکی سمیت دیگرکمپنیوں پر برہمی کا اظہارکرتے ہوئے کہاکہ اپنی تیارکردہ گاڑیاں پاکستان سے یوکے بھجوا کر دکھا دیں ۔پاکستان میں سب سٹینڈرڈ گاڑی بناتے ہیں ۔انجینئرنگ ڈیولپمنٹ بورڈ کی جانب سے کمیٹی کو بریفنگ دی گئی ، کنوینر کمیٹی سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے استفسار کیا کہ دیگر ممالک میں گاڑیوں کی کتنی کاسٹ ہے،کوئی موازنہ بھی تو کیا ہوگا۔مینوفیکچررز کی جوقیمت ہے اس کی بات کر رہا ہوں۔ جو گاڑیاں دوسرے ممالک میں بن رہی ہیں، بغیر ٹیکس کےان کی قیمت کتنی ہے؟اس کی تفصیلات کمیٹی کو دی جائیں،پرائسنگ اور برآمدات پر بھی بات کریں گے۔ سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے استفسار کیا کہ آپ کی ٹویوٹا گاڑی جاپان جاسکتی ہے؟ اس کا جواب دیں، آپ کی گاڑی یوکےجا سکتی ہے؟ایک گاڑی پاکستان سے یوکے بھجوا کر دکھا دیں۔ سینیٹر سلیم مانڈوی والاکاکہناتھاکہ جس دن گاڑی جائے گی میں سلیبریٹ کروں گا۔یہاں کا کسٹمر مطمئن نہیں ہے، سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے کہاکہ آپ کو قبول کرناچاہئے کہ آپ سب سٹینڈرڈ گاڑی بناتے ہیں۔، بریفنگ میں بتایا گیا کہ سال 2018-19 میں موٹرسائیکلز،رکشوں،ٹریکٹرز،کاروں، اوربسوں سمیت دیگرگاڑیوں کی پروڈکشن 2.89ملین رہی،، 2019-20میں پروڈکشن 2.09ملین ،2020-21میں 2.85 ملین ،2021-22میں 2.65 ملین جبکہ سال سال جولائی سے اپریل تک پروڈکشن 1.3 ملین ریکارڈ کی گئی۔حکام نے کمیٹی کو بریفنگ میں بتایا کہ ملک میں گاڑیوں کے پارٹس کو مقامی طور پر تیار کرنے کا پروگرام 1987 میں شروع ہوا۔اب موٹر سائیکل کے 95 فیصد اور ٹریکٹرز کے 90 فیصد پارٹس مقامی طور پر تیار ہو رہے ہیں۔گاڑیوں کے 55 فیصد پارٹس مقامی طور پر بن رہے ہیں۔کاروں کے پارٹس مقامی طور پر کم تیار ہو رہے ہیں جس کی بنیادی وجہ ملک میں کم کاروں کی تیاری ہے۔2016 میں نئی آٹو پالیسی لائی گئی جسکے تحت مقامی طور پر پارٹس بنانے پر زور دیا گیا۔اس کیلئے تین ایس آر او جاری کئے گئے۔نئی پالیسی کے تحت صارفین کو تاخیر کے باعث 3 ارب 40 کروڑ روپے واپس کیے گئے۔