آزاد جموں و کشمیر (اے جے کے) کی قانون ساز اسمبلی نے عجلت میں 2 کھرب 32 ارب روپے خسارے کا بجٹ منظور کر لیا۔
رپورٹ کے مطابق بجٹ کو منظوری سے چند گھنٹے قبل ہی سینیئر وزیر خزانہ وقار نور نے ایوان میں پیش کیا تھا، بجٹ میں اعادی اخراجات کے لیے ایک کھرب 90 ارب 4 کروڑ 70 لاکھ روپے اور ترقیاتی سرگرمیوں کے لیے 2 ارب روپے کی غیر ملکی امداد سمیت 42 ارب روپے تجویز کیے گئے ہیں۔
اجلاس صبح 11 بجے بلایا گیا تھا تاہم ڈھائی گھنٹے تاخیر سے شروع ہوا جس کی صدارت اسپیکر چوہدری لطیف اکبر نے کی۔
وقار نور کو بجٹ پیش کرنے کے لیے منگل کو ہی وزارت خزانہ کا قلمدان دیا گیا تھا، انہوں نے ایوان کو بتایا کہ آزاد کشمیر کی حکومت آئندہ مالی سال میں ایک ارب 66 کروڑ 45 لاکھ روپے کی آمدنی پیدا کرے گی۔
انہوں نے کہا کہ اس میں ٹیکس ریونیو سے 44 ارب روپے، وفاقی متغیر گرانٹ میں آزاد کشمیر کے حصے سے 90 ارب روپے، اندرونی وسائل سے 29.85 ارب روپے، پانی کے استعمال کے چارجز سے ایک ارب 70 کروڑ روپے اور کیپٹل رسیدوں (قرضوں اور ایڈوانسز) سے 90 کروڑ روپے شامل ہوں گے۔
تاہم وزیر اس بارے میں خاموش تھے کہ آمدنی اور اخراجات کے درمیان 23 ارب 59 کروڑ 70 لاکھ روپے کے بڑے فرق کو کیسے اور کہاں سے پورا کیا جائے گا۔
چونکہ آزاد جموں و کشمیر کا پورا ترقیاتی بجٹ وفاقی حکومت ’ترقیاتی گرانٹ‘ کے طور پر فراہم کرتی ہے، وقار نور نے انکشاف کیا کہ اگرچہ وفاقی حکومت نے آزاد کشمیر کے ترقیاتی بجٹ کے لیے 30 ارب روپے مختص کیے تھے جس میں 2 ارب روپے کا غیر ملکی حصہ بھی شامل تھا، تاہم حکومت آزاد کشمیر نے 42 ارب روپے بشمول 2 ارب روپے کی غیر ملکی امداد کا اپنا سالانہ ترقیاتی پروگرام تیار کیا۔
یہاں بھی وزیر خزانہ نے یہ نہیں بتایا کہ آزاد کشمیر کی حکومت اپنے مجوزہ ترقیاتی بجٹ کے لیے اضافی 12 ارب روپے کیسے پیدا کرے گی۔
انہوں نے کہا کہ دوسری جانب انفراسٹرکچر سے متعلقہ شعبے کے لیے مختص رقم کو موجودہ سال میں 66 فیصد سے کم کر کے آئندہ سال کے لیے 55 فیصد کر دیا گیا ہے۔
وزیر خزانہ نے ایوان کو بتایا کہ ترقیاتی بجٹ کے 60 فیصد فنڈز 361 جاری منصوبوں اور 40 فیصد نئے منصوبوں کے لیے خرچ کیے جائیں گے، رواں سال کے اختتام تک 91 منصوبے مکمل ہو جائیں گے جبکہ اگلے سال کے لیے 165 منصوبوں کی تکمیل کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ موجودہ حکومت اپنے ملازمین کی مالی حالت بہتر بنانے کے لیے کوشاں ہے جو کسی بھی حکومت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں، اپنے وسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے آزاد جموں و کشمیر کی حکومت وفاقی حکومت کی طرز پر اپنے ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافے پر بھی غور کرے گی۔
اس سے قبل جب اپنی تقریر کے آغاز میں وزیر خزانہ نے عندیہ دیا کہ وہ اسی دن بجٹ پاس کرانے کے لیے قواعد کی معطلی کی قرارداد بھی پیش کریں گے تو حزب اختلاف کے کچھ ارکان نے اس پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ بجٹ میں ان کی مثبت تجاویز کو شامل کرنے کے لیے اس پر بحث ہونی چاہیے۔
اس معاملے پر اپوزیشن کے قانون سازوں نے واک آؤٹ بھی کیا تاہم وزیراعظم کی جانب سے کچھ یقین دہانیوں کے بعد انہیں ایوان میں واپس لایا گیا۔