ہفتہ وار مہنگائی 20 جولائی کو ختم ہونے والے ہفتے کے دوران سالانہ بنیادوں پر بڑھ کر 29.16 فیصد ہو گئی، جس کی وجہ ملک بھر میں چینی کی خوردہ قیمتوں میں اضافہ ہے۔
پاکستان ادارہ شماریات کے مطابق سب سے زیادہ چینی کی قیمت اسلام آباد میں 160 روپے فی کلو دیکھی گئی، اسی طرح کوئٹہ میں 152 روپے، راولپنڈی، لاہور، پشاور اور خضدار میں 150 روپے فی کلو قیمت ریکارڈ کی گئی، ملک کے دیگر شہروں میں چینی کی اوسط قیمت 145 روپے فی کلو رہی۔
قلیل مدتی مہنگائی کی پیمائش حساس قیمت انڈیکس (ایس پی آئی) سے کی جاتی ہے، انڈیکس میں گزشتہ 8 ہفتوں کے دوران معمولی کمی دیکھی گئی ہے جس کی وجہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہونے والی کمی ہے۔
مئی میں ایس پی آئی 3 ہفتوں کے لیے 45 فیصد سے زائد رہا، بعد ازاں، 4 مئی کو ختم ہونے والے ہفتے کے دوارن یہ بڑھ کر تاریخ کی بُلند ترین سطح 48.35 فیصد پر پہنچ گیا تھا۔
ہفتہ وار بنیادوں پر قلیل مدتی مہنگائی میں 0.07 فیصد کی کمی ہوئی۔
مہنگائی کے رجحان کی بڑی وجہ روپے کی قدر میں کمی، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ، سیلز ٹیکس کا بڑھنا اور بجلی کے زیادہ بل ہیں۔
آئی ایم ایف کی حالیہ رپورٹ میں پیش گوئی کی گئی ہے کہ صارف قیمت انڈیکس (سی پی آئی) مالی سال 2024 کے دوارن 25.9 فیصد تک رہ سکتا ہے، جو گزشتہ مالی سال کے 29.6 فیصد کے مقابلے میں نمایاں طور پر کم ہے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ مالی سال 2024 کی آخری سہ ماہی میں مہنگائی 20 فیصد سے کم رہنے کی توقع ظاہر کی گئی ہے۔
گزشتہ دو سالوں کے دوران پاکستان میں مہنگائی میں مسلسل اضافہ دیکھا گیا ہے، تاہم جون سے اس میں کمی کا رجحان دیکھا گیا جس کی وجہ بنیادی اثر اور غذائی اشیا کے کردار کو کم کرنا ہے۔
مثبت رجحان کے باوجود قیمتوں پر اب بھی دباؤ برقرار ہے، جس کی بنیادی وجہ مالیاتی سختی اور مہنگائی کی بلندی کی توقعات کے تاخیر سے نفاذ ہے۔
ایس پی آئی میں 51 اشیا کی قیمتوں کا تجزیہ کیا جاتا ہے، اس میں سے گزشتہ ہفتے کے مقابلے میں 30 مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ، 9 میں کمی اور 12 کی قیمتوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
زیر جائزہ ہفتے کے دوران جن اشیا کی قیمتوں میں سالانہ بنیادوں پر اضافہ ہوا، ان میں گندم کا آٹا (126.82 فیصد)، سگریٹ (110.75 فیصد)، گیس چارجز پہلی سہ ماہی کے لیے (108.38 فیصد)، لپٹن چائے (98.99 فیصد)، باسمتی رائس ٹوٹا (79.37 فیصد)، رائس ایری-6/9 (74.14 فیصد)، چینی (66.18 فیصد)، آلو (6032 فیصد)، مردانہ چپل (58.05 فیصد)، ٹماٹر (57.58 فیصد)، گڑ (54.21 فیصد)، نمک (53.83 فیصد) اور ڈبل روٹی (46.93 فیصد) شامل ہیں۔
ہفتہ وار بنیادوں پر جن مصنوعات کی قیمتوں میں زیادہ اضافہ دیکھا گیا، ان میں ٹماٹر (36.06 فیصد)، پسی مرچ (20.17 فیصد)، چینی (4.77 فیصد)، انڈے (4.70 فیصد)، گڑ (3.66 فیصد)، کپڑا (2.64 فیصد) اور لہسن (2.31 فیصد) شامل ہیں۔
دوسری جانب، ہفتہ وار بنیادوں پر ان اشیا کی قیمتوں میں کمی ہوئی، پیاز (10.29 فیصد)، مرغی (8.57 فیصد)، کیلے (8.34 فیصد)، گندم کا آٹا (0.98 فیصد)، ویجیٹیبل گھی ایک کلو (0.49 فیصد)، ویجیٹیبل گھی 2.5 کلو گرام (0.39 فیصد)، کوکنگ آئل 5 لیٹر (0.30 فیصد)، پیٹرول (3.40 فیصد) اور ڈیزل (2.64 فیصد)۔
حکومت نے آئی ایم ایف پروگرام کے تحت مالیاتی خسارے پر قابو پانے کے لیے سخت اقدامات کیے ہیں، جن میں ایندھن اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ، سبسڈیز کا خاتمہ، مارکیٹ پر مبنی شرح تبادلہ اور زیادہ ٹیکسز شامل ہیں، جس کی وجہ سے آنے والے مہینوں میں معاشی نمو سست اورمہنگائی میں اضافہ ہوسکتا ہے۔