وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کے ساتھ ٹیلی فونک گفتگو کی جس میں بحیرہ اسود میں گندم کی نقل و حمل رکنے اور اس کے نتیجے میں اشیائے خورونوش کے غذائی قلت پر مرتب ہونے والے اثرات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
وزارت خارجہ سے جاری بیان کے مطابق بلاول نے گزشتہ سال بحیرہ اسود سے گندم کی برآمد کے حوالے سے روس اور یوکرین کے درمیان ہونے والے معاہدے کو حتمی شکل دینے میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے کردار کو سراہا اور ان سے درخواست کی کہ وہ تمام فریقین کے تحفظات کو مدنظر رکھتے ہوئے تعمیری مذاکرات کے ذریعے قیمتی روابط کی بحالی کی کوششیں جاری رکھیں۔
بلاول بھٹو زرداری نے یورپ میں قرآن پاک کی بے حرمتی کے واقعات کی مذمت کرتے ہوئے بین المذاہب ہم آہنگی اور پرامن بقائے باہمی کے لیے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے مثبت کردار کو سراہا۔
انہوں نے اسلاموفوبیا کے بڑھتے ہوئے رجحان سے نمٹنے کے لیے اقوام متحدہ کی سطح پر جامع حکمت عملی اور ایکشن پلان مرتب کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔
وزیر خارجہ اور اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے گزشتہ سال پاکستان میں آنے والے سیلاب کے بعد اقوام متحدہ کے پاکستان کے ساتھ تعاون پر بھی گفتگو کی۔
بلاول نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کو حال ہی میں سندھ میں سیلاب سے متاثرہ خواتین کو زمین دیے جانے کے منصوبے سے بھی آگاہ کیا۔
ادھر بلاول بھٹو زرداری نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے بیان میں کہا کہ مجھے ٹیلی فون پر اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل سے گفتگو کا موقع ملا اور میں نے پاکستان میں سیلاب کے بعد ان کے تعاون اور قائدانہ کردار پر ان کا شکریہ ادا کیا۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز پاکستانی وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری اور روسی فیڈریشن کے وزیر خارجہ سرگئی لاروف کے درمیان بھی ٹیلی فونک رابطہ ہوا تھا جس میں دونوں وزرائے خارجہ نے بلیک سی گرین انیشی ایٹو (بی ایس جی آئی) پر بھی تبادلہ خیال کیا تھا۔
وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے اس اقدام کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے خوراک کی قیمتوں میں اضافے اور غذائی تحفظ سے متعلق چیلنجز کا باعث بننے والے عالمی غذائی سپلائی چین میں خلل پر ممکنہ اثرات کو تسلیم کرتے ہوئے قابل عمل حل تلاش کرنے کے لیے ٹھوس کوششوں کی ضرورت پر زور دیا تھا، تاکہ پہلے سے معاشی دباؤ کا شکار ترقی پذیر ممالک کو اس سے فائدہ پہنچے۔
یاد رہے کہ روس نے بحیرہ اسود کے راستے یوکرین کو گندم کی برآمدات کے معاہدے کا دوباہ حصہ بننے سے انکار کردیا ہے اور فی الحال روس اس معاہدے کی تجدید سے انکاری ہے۔
گزشتہ دنوں ترکیہ کے صدر طیب اردوان نے امید ظاہر کی تھی کہ وہ ولادیمیر پیوٹن سے تفصیلی گفتگو کے دوران انہیں انسانی بنیادوں پر بنائی گئی راہداری کے راستے تجارت جاری رکھنے پر قائل کر لیں گے۔
ادھر روس نے شرط رکھی ہے کہ اگر ان کے تمام تر مطالبات مان لیے جاتے ہیں تو وہ اس معاہدے کی توسیع کے لیے تیار ہیں، جہاں اس معاہدے کی صورت میں یوکرین کے پورٹس پر موجود 3 کروڑ 30 لاکھ ٹن گندم برآمد کی جاسکے گی۔