سینیٹ نے ایک صدی پرانے آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 میں ترمیم کے بل کی منظوری دے دی جسے حالیہ دنوں میں حکمران اتحادیوں اور حزب اختلاف دونوں کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
اس بل میں خفیہ ایجنسیوں کو کسی بھی شخص کے گھر پر چھاپے مارنے اور حراست میں لینے کے مکمل اختیارات دینے کی کوشش کی گئی ہے۔
اس بل کو قومی اسمبلی پہلے ہی منظور کر چکی ہے اور ایوان میں دونوں جانب حکومتی بینچوں اور حزب اختلاف کی بھرپور مخالفت کے بعد اسے آخری بار سینیٹ کی متعلقہ قائمہ کمیٹی کے پاس بھیجا گیا تھا۔
وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کی جانب سے بل پیش کرتے ہوئے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ بل میں کچھ تبدیلیاں کی گئی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حکومت نے غور و خوض کے بعد اس شق کو واپس لینے کا فیصلہ کیا جس میں انٹیلی جنس ایجنسیوں کو بغیر وارنٹ کے شہریوں کو گرفتار کرنے کا اختیار دیا گیا تھا۔
اس کے بعد وفاقی وزیر نے قانون سازی میں کئی دیگر تبدیلیوں کی تفصیلات بتاتے ہوئے اسے منظور کرنے کی درخواست کی۔
ایوان میں بل پر بحث شروع ہوتے ہی جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے کہا کہ قانون سازی میں تبدیلیاں معمولی نوعیت کی ہیں اور اس کی روح پہلے کی طرح برقرار ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم اس بل کو اس کی موجودہ حالت میں پاس کرتے ہیں تو پورا ملک چھاؤنی میں تبدیل ہو جائے گا اور انسانی حقوق اور سیاسی و صحافتی آزادی بری طرح متاثر ہو گی۔
انہوں نے خبردار کیا کہ اگر قانونی مارشل لا کے لیے کوئی اصطلاح ہے تو یہ اس قانون سازی کے نتیجے میں وہ نافذ العمل ہو جائے گی۔
اسی طرح پیپلز پارٹی کے رضا ربانی نے نشاندہی کی کہ بل کے متن میں سیکرٹ ایکٹ میں ترمیم کی ضرورت کو ظاہر نہیں کیا گیا۔
اس کے بعد جیسے ہی سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی آگے بڑھنے لگے اعظم نذیر تارڑ نے مداخلت کی اور درخواست کی کہ انہیں بل میں ایک اور ترمیم تجویز کرنے کی اجازت دی جائے۔
اس پر صادق سنجرانی نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو قائمہ کمیٹی میں ترمیم کی تجویز پیش کرنی چاہیے تھی۔
تاہم، اعظم نذیر تارڑ کو بالآخر اپنی ترمیم پیش کرنے کی اجازت دی گئی اور بل کو ایوان سے ووٹنگ کے بغیر پاس کر دیا گیا۔
وزیر قانون نے پرتشدد انتہا پسندی کی روک تھام کے بل 2023 کو قانون سازی کے ایجنڈے سے واپس لینے کی قرارداد بھی پیش کی۔
اس بل کا مقصد پرتشدد انتہا پسندی کو روکنا تھا لیکن حکمران اتحاد سمیت اراکین سینیٹ کی شدید مخالفت کے بعد چیئرمین صادق سنجرانی نے اسے مسترد کر دیا تھا۔
پرتشدد انتہاپسندی کی روک تھام کے بل میں کہا گیا ہے کہ پرتشدد انتہا پسندی سے مراد نظریاتی عقائد، مذہبی اور سیاسی معاملات یا فرقہ واریت کی خاطر دھمکانا، طاقت کا استعمال اور تشدد کرنا، اکسانا یا ایسی حمایت کرنا ہے جس کی قانون میں ممانعت ہے۔
بل میں کہا گیا ہے کہ پرتشدد انتہا پسندی میں کسی فرد یا تنظیم کی مالی معاونت کرنا جو پرتشد انتہا پسند ہو، دوسرے کو طاقت کے استعمال، تشدد اور دشمنی کے لیے اکسانا شامل ہے۔
تحریک پیش کرتے ہوئے اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ بل کی قسمت اب نو منتخب حکومت پر چھوڑ دی جائے گی۔