حساس نوعیت کے فرقہ وارانہ بل بارے تمام مسالک کے جید علمائے کرام کو اعتماد میں نہ لینا بدنیتی پر مبنی ہے، علامہ راجہ ناصر

مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے چیئرمین علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ مذہب اور اسلامی مقدسات کی آڑ میں ملک کو ایک خوفناک آگ میں دھکیلا جارہا ہے، پی ڈی ایم میں موجود جماعتیں اس ملک کو تباہی کی طرف لے جا رہی ہیں، ایک طرف تو صحابہ کرام کی عظمت و ناموس کو جواز بنا کر مسلکی تعصبات پر مبنی بل پاس کیا گیا، جب کہ دوسری طرف مختلف مسالک کی کتب میں رسول کریم ص کے والدین اور خاندان کے دیگر افراد کے ایمان پر توہین آمیز بہتان لگایا جا رہا ہے اور اہل بیت اطہار ع کے دشمنان و قاتلین کو تقدس کا لبادہ اوڑھا جا رہا، ہمارے فقہاء نے تمام مسالک کے مقدسات کی توھین کو حرام قرار دیا ھے، لیکن اگر کوئی قانون اس لیے بنایا جا رہا ہے کہ اہلبیت اطہار علیہم السلام کے واضح دشمنوں کو مقدس بنا کر پیش کیا جائے، تو یہ سب ہمارے لیے کسی طور پر قابلِ قبول نہیں ہے، پی ڈی ایم حکومت نے اسٹیبلشمنٹ کی آشیرباد سے ملک میں آئین پاکستان اور قرآن و سنت سے متصادم متنازعہ بل کو چور دروازے سے منظور کر کے انتہاء پسند تکفیریوں کو ملک میں پھر سے مسلمانوں کے قتل عام کا لائسنس دے دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ امپورٹڈ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ اس ملک میں مشرقی پاکستان جیسے حالات پیدا کرنے کی دانستہ کوشش کر رہے ہیں، دھڑا دھڑ حساس ترین اور متنازعہ نوعیت کے فرقہ وارانہ بلز کی لوٹ سیل لگا رکھی ہے، جن کے اسلاف قیام پاکستان کے مخالف تھے، آج ان کے پیروکار استحکام پاکستان پر وار کر رہے ہیں، ہم مسلم پاکستان کو مسلکی پاکستان بنانے کی قطعاً اجازت نہیں دیں گے، مذموم سازش کرنے والے اس ملک و قوم کے خیرخواہ نہیں، ہم اس گھناؤنے فعل کی شدید مذمت کرتے ہیں، بل میں توہین و دیگر عناوین کی واضح تعریف کا نہ ہونا ہی ملک میں رواداری اور مذہبی ہم آہنگی کے لیے خطرناک ہو گا، عوام ان ملک دشمن موقع پرست سیاست دانوں کو کبھی معاف نہیں کریں گے جن کا ہر قدم ملک کو بربادی کی طرف لے جا رہا ہے،
انہوں نے کہا کہ مذہب کے حوالے سے بل کی منظوری سے قبل تمام مسالک کو اعتماد میں نہ لینے کا مطلب ملک کو مسلکی ریاست میں تبدیل کرنا ہے، ناعاقبت اندیش حکمران سخت مغالطے میں ہیں، اگر ریاستِ پاکستان کسی خاص مسلک کو باقیوں پر مسلط نہیں کرنا چاہتی تو توہین مذہب کے قوانین میں یہ نکتہ شامل کیا جائے کہ توہین مذہب کا ملزم جس مسلک سے تعلق رکھتا ہو اس کے خلاف مقدمہ اس مسلک کے جامع الشرائط فقیہ یا مفتی کی تصدیق کے بغیر درج نہ کیا جائے، بصورت دیگر جدید متنازع قانون نے شیعیان حیدر کرار کو بند گلی میں دھکیل کر ملگ گیر تحریک چلانے اور اپنے انسانی و مذہبی حقوق کے حصول تک جدوجہد کرنے پر مجبور کر دیا ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ توہین صحابہ بل کا مقصد اہل تشیع کو نشانہ بنانا ہے، اگر حکومت کا یہ مقصد نہیں تو تحفظ حقوق شیعہ بل بھی لایا جائے اور ایسے تمام امتیازی قوانین کا راستہ بند کیا جائے جن سے شیعہ متاثر ہوتے ہوں۔