سرینگر(سی این پی)بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کے حریت رہنما میر واعظ عمر فاروق کو 4 سال سے زائد عرصے تک نگھر میں نظربند رکھنے کے بعد رہا کر دیا۔غیر ملکی خبر ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق 50 سالہ کشمیری حریت رہنما میر واعظ عمر کو دیگر سیاسی رہنماں کے ساتھ اس وقت حراست میں لیا گیا تھا جب حکومت نے مقبوضہ کشمیر کی آئینی نیم خود مختاری منسوخ کر کے 2019 میں براہ راست وفاقی حکومت کے زیر انتظام لیا تھا۔
کئی مہینوں تک انٹرنیٹ کی بندش کے بعد بھارت نے مظاہروں پر قابو پانے کے لیے خطے میں مسلح افواج کی تعداد میں اضافہ کردیا تھا تاہم مقبوضہ کشمیر میں متعدد نظربند رہنماں کو بعد میں رہا کر دیا گیا تھا لیکن میر واعظ عمر فاروق سری نگر میں اپنی رہائش گاہ پر نظربند تھے۔سری نگر کی جامع مسجد میں 218 ہفتوں کے بعد پہلی بار انہیں نماز جمعہ کی امامت کرتے ہوئے دیکھنے کے لیے ہزاروں نمازی جمع ہوئے تھے۔
گزشتہ ہفتے ایک عدالت نے حکام سے ان کی مسلسل حراست کی وضاحت کرنے کو کہا تھا اور انہوں نے عوام کو بتایا کہ پولیس نے انہیں جمعرات کو آگاہ کیا تھا کہ حکام نے انہیں رہا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ میری نظر بندی اور اپنے لوگوں سے علیحدگی کا یہ دور میرے لیے میرے والد کی موت کے بعد سب سے زیادہ تکلیف دہ رہا ہے۔میرواعظ نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی ہندو قوم پرست حکومت کی طرف سے آئینی تبدیلیوں کو ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے کہا کہ الحمداللہ ہمارے حوصلے بلند ہیں۔
انہوں نے کہا کہ نریندر مودی نے یوکرین کے بارے میں کہا کہ یہ جنگ کا وقت نہیں ہے، وہ صحیح ہے، اختلافات کو طاقت کے استعمال یا جبر کے بجائے بات چیت سے حل کرنا چاہیے، تاہم انہوں نے متعدد سیاسی قیدیوں کی رہائی کا بھی مطالبہ کیا۔خیال رہے کہ کشمیر بھارت اور پاکستان کے درمیان تقسیم ہے، دونوں ممالک کا متنازع خطے پر مکمل دعوی اور اس پر متعدد جنگیں بھی لڑ چکے ہیں۔مقبوضہ کشمیر میں 1989 میں بھارت کے خلاف شروع ہونے والی بغاوت میں ہزاروں افراد ہلاک ہوئے جن میں بھارتی فوجی، عسکریت پسند اور عام شہری بھی شامل ہیں۔
رپورٹ کے مطابق سری نگر میں آج مسجد کے اطراف انسداد بغاوت پولیس اور کمانڈوز سمیت سکیورٹی کی بڑی تعداد تعینات کردی گئی تھی۔خطے میں امن اور خوش حالی لانے کے مقصد سے چلنے والی تحریکوں نے دوسری جگہوں سے بھارتی شہریوں کو زمین خریدنے اور علاقے میں سرکاری ملازمتیں حاصل کرنے کی بھی اجازت دی ہے، تاہم اس پالیسی کو ناقدین نے نوآبادیات کے طور پر مسترد کردیا ہے۔رپورٹ میں کہا گیا کہ متنازع علاقے کی آزادی یا اس کے پاکستان کے ساتھ الحاق کا مطالبہ کرنے والوں کی بھارتی فوجیوں کے ساتھ مسلح جھڑپوں میں نمایاں کمی آئی ہے لیکن اس ماہ تشدد میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جہاں اب تک 8 سیکیورٹی اہلکاروں سمیت کم از کم 14 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔