اسلام آباد (نیوز رپورٹر) گیس سیکٹر میں گزشتہ 10 سال کے دوران گردشی قرضے میں 1700 ارب روپے اضافے کا انکشاف، گردشی قرضہ ریکارڈ 2 ہزار 897 ارب روپے تک پہنچ گیا۔
ایم ڈی پی ایس او نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ پی ایس او بطور ادارہ لٹ چکا ہے۔ جن سرکاری کمپنیوں سے 800 ارب روپے کے واجبات وصول کرنے ہیں وہ دیوالیہ ہو چکی ہیں۔
گزشتہ دس برس میں اقتدار کے مزے لوٹنے والی مختلف حکومتوں نے گیس سیکٹر میں بدانتظامی کی انتہا کر دی۔ گیس سیکٹر کا گردشی قرضہ 1700 ارب روپے اضافے کے ساتھ ریکارڈ 2 ہزار 897 ارب روپے تک پہنچ گیا۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ سال 2013 سے 2023 کے دوران گیس ٹیرف نہ بڑھانے کی وجہ سے سرکلر ڈیٹ قابو سے باہر ہوگیا۔ حال ہی میں آئی ایم ایف کے دباو پرگیس قیمتوں میں تین بار اضافہ کیا گیا جس سے گردشی قرضے میں اضافے کا بہاو اب رک گیا ہے۔
گیس سیکٹر میں 60 فیصد صارفین پروٹیکٹڈ کیٹگری کے ہیں جنہیں 200 سے 400 روپے فی ایم ایم سی ایف ڈی گیس فراہم کی جاتی ہے۔
گیس خریداری کی سرکاری لاگت 1600 روپے فی ایم ایم سی ایف ڈی ہے۔ 800 ارب روپے کا گیپ انڈسٹری، کمرشل، سی این جی اور سیمنٹ سیکٹر کو مہنگی گیس فروخت کرکے پورا کیا جاتا ہے۔
وزارت پیٹرولیم کے حکام نے بریفنگ میں بتایا کہ صرف تین بڑی کمپنیوں کے زمہ 2752 ارب روپے کا گردشی قرضہ ہے جو مجموعی سرکلر ڈیٹ کا 95 فیصد ہے۔ ان میں او جی ڈی سی ایل کا حصہ 1133 ارب روپے ہے۔
پی ایس او کا گردشی قرضہ 816 ارب روپے ہے جبکہ پاکستان پیٹرولیم لمیٹڈ کا گردشی قرضے میں حصہ 803 ارب روپے ہے۔
رکن کمیٹی راجا ناصر عباس نے کہا کہ پی ایس او حاتم طائی ہے۔ ایم ڈی پی ایس او نے بتایا پی ایس او نے مختلف سرکاری اداروں سے 800 ارب روپے وصول کرنے ہیں لیکن وہ بینک کرپٹ ہو چکے ہیں
ان میں پاور سیکٹر، پی آئی اے اور پاکستان اسٹیل ملز بھی شامل ہیں۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ تیل و گیس سیکٹر میں 5 ارب ڈالر سرمایہ کاری کا امکان ہے۔
سمندر میں تیل وگیس کی تلاش کا کام جنوری 2025 میں شروع ہوگا۔ سمندر میں تیل و گیس کی تلاش کے لئے 24 بلاکس کے لائسنس دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ چین کی سرکاری کمپنی کو بھی تیل و گیس سیکٹر میں سرمایہ کاری کیلئے قائل کیا جائے گا۔