اسلام آباد ہائیکورٹ نے وفاقی وزیر شیریں مزاری کی بیٹی ایمان زینب مزاری کی نیشنل پریس کلب کے باہر طلبہ احتجاج پر درج مقدمہ خارج کرنے کی درخواست پر سیکرٹری داخلہ، چیف کمشنر، آئی جی پولیس کو نوٹس جاری کردیئے،ریمارکس دیئے کہ طلبہ کی آواز دبانے کی اجازت نہیں دیں گے، اٹارنی جنرل نے کہا جو ہوا یہ نہیں ہونا چاہیے تھا، میں اس بارے میں معافی چاہتا ہوں۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللّٰہ نے نیشنل پریس کلب کے باہر طلبہ کے احتجاج پر درج مقدمہ ختم کرنے کی درخواست پرسماعت کی، سیکریٹری انسانی حقوق، ایڈیشنل سیکریٹری داخلہ، آئی جی اسلام آباد کے علاوہ اٹارنی جنرل خالد جاوید خان اور ایڈوکیٹ جنرل اسلام آباد بھی اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیش ہوئے۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے سوال کیا کہ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ ایف آئی آر بنتی تھی؟ طلبہ کا یہ کیمپ کب سے لگا ہوا ہے؟
وکیل شعیب شاہین نے بتایا کہ یہ کیمپ یکم مارچ سے لگا ہوا ہے، میں اسٹوڈنٹس سے ملا، ان کا کہنا ہے سادہ کپڑوں میں لوگ آکر انہیں ہراساں کرتے ہیں،اسٹوڈنٹس کہتے ہیں کہ ہم اسٹڈیز چھوڑ کر اپنی حفاظت کیلئے یہاں بیٹھے ہیں۔
جسٹس اطہرمن اللّٰہ نے کہا کہ بلوچستان کے ینگ اسٹوڈنٹس پر امن طور پر بیٹھے ہیں، وفاقی حکومت کی جانب سے ان کے پاس کوئی نہیں گیا، یہ وفاقی دارالحکومت ہے، یہاں تو حکومت کو زیادہ توجہ دینی چاہیے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ 2014 ء میں صدر عارف علوی یہاں پٹیشنر تھے جنہیں عدالت نے ریلیف دیا، وفاقی حکومت کو تو چاہیے کہ طلبہ کو فورم مہیا کرے تاکہ وہ اپنی آواز سنا سکیں، ان کی ریشنل پروفائلنگ بھی ہو رہی ہے، یہ تو غیر آئینی اور بہت سنجیدہ بات ہے۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس اسلام آباد نے عدالت نے چیف کمشنر اسلام آباد کو روسٹرم پر بلالیا اور مکالمہ کیا کہ آپ کے ہوتے ہوئے ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔
ایڈوکیٹ جنرل اسلام آباد نے کہا کہ آسٹریلیا کی کرکٹ ٹیم بھی یہاں ٹھہری ہوئی ہیں،اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے بتایا کہ لاء اینڈ آرڈرکی صورتحال ہے، پشاور میں اتنا بڑا واقعہ ہوا پھر بھی ایسا نہیں ہونا چاہیے، لاپتہ بلوچ طالب علم کا معاملہ بھی دیکھا جائے گا، طلبہ پر امن بیٹھے تھے، جو ہوا یہ نہیں ہونا چاہیے تھا، میں اس بارے میں معافی چاہتا ہوں۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ وزیراعظم یا کسی سینئر وزیر کو وہاں جانا چاہیے تھا،طلبہ کی آواز دبانے کی اجازت نہیں دیں گے۔
مقدمہ خارج کرنے کی درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی تھی کہ دفعہ 144 کےنفاذ کی بھی وضاحت کی جائے تاکہ اس کا غلط فائدہ نہ اٹھایا جاسکے، دائر درخواست میں استدعاکی گئی کہ غیرقانونی اور بےبنیاد مقدمہ خارج کیا جائے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے درخواست پر سماعت 21 مارچ تک ملتوی کردی۔
واضح رہے کہ ایمان مزاری اور دیگر کی جانب سے دائر درخواست میں ایف آئی آر کی کاپی فوراً فراہم کرنے اور کارروائی معطل کرنے کی استدعا کی گئی ہے۔
انہوں نے استدعا کی ہے کہ ایف آئی آر سیل کرنا اور کاپی فراہم نہ کرنا قانون کی خلاف ورزی قرار دیا جائے، ایف آئی آر کی کاپی اور وقوعہ کا تمام ریکارڈ عدالت کے سامنے پیش کرنے کا حکم دیا جائے۔
درخواست میں شیریں مزاری کی صاحبزادی نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ بلوچ طلباء پر پولیس نے پریس کلب کے سامنے لاٹھی چارج کیا، پھر مجھ سمیت سب پر ایف آئی آر درج کی، آزادیٔ اظہارِ رائے کے آئینی حق کو استعمال کرتے ہوئے پریس کلب کے باہر طلبہ کے احتجاج میں گئی، جہاں طلبہ جبری گمشدگیوں اور اپنے حقوق کے لیے احتجاج کر رہے تھے کہ پولیس نے پُرامن طلباء پر لاٹھی چارج کر دیا۔
درخواست میں سیکرٹری داخلہ، چیف کمشنر اور آئی جی پولیس اسلام آباد کو فریق بنایا گیا ہے۔