اسلام آباد میں احتجاج کے نام پرتخریب کاری کی گئی،آئی جی

اسلام آباد ۔آئی جی پولیس اسلام آباد، علی ناصر رضوی نے کہا ہے کہ اسلام آباد پر ایک انتہائی منظم حملہ کیا گیا، جس کی قیادت وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کر رہے تھے۔انہوں نے ڈی آئی جی سید علی رضا کے ساتھ ریسکیو ون فائیو کے دفتر میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ پولیس اہلکار عبدالحمید شاہ کی شہادت مظاہرین کے تشدد کے باعث ہوئی۔ ہم سو فیصد یہ یقین دہانی کرائیں گے کہ کانسٹیبل کی موت کے ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔

علی ناصر رضوی نے مزید کہا کہ اسلام آباد پولیس نے ان کا ڈی چوک تک پہنچنے کا منصوبہ ناکام بنا دیا۔ ہمارا مقصد یہ تھا کہ ایس سی او کانفرنس کے دوران بارہ سے پندرہ افراد ڈی چوک میں دھرنا دینے کے لیے بیٹھ جائیں۔

انہوں نے وضاحت کی کہ اسلام آباد پر حملے کی قیادت وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا نے کی، اور داخلی راستوں پر حملہ کیا گیا۔ اس چڑھائی میں ملوث افراد کے خلاف دس مقدمات درج کیے گئے ہیں، یہ محض احتجاج نہیں بلکہ ایک انتشار اور ہلچل تھی۔

علی ناصر رضوی نے کہا کہ مظاہرین نے انتہائی زہریلا آنسو گیس استعمال کیا، یہ صرف ایک سادہ احتجاج نہیں تھا، بلکہ یہ ایک منظم حملہ تھا جو کسی صورت بھی قابل قبول نہیں۔ جو بھی اس میں ملوث ہیں، ہم انہیں ہر حال میں گرفتار کریں گے۔

آئی جی اسلام آباد نے مزید بتایا کہ سیف سٹی کے 154 ملین روپے کے 441 کیمرے توڑے گئے، 31 پولیس موٹر سائیکلیں بھی تباہ کی گئیں، اور متعدد گاڑیوں کے شیشے توڑے گئے۔ تین دنوں کے احتجاج میں تخریب کاری کی گئی، خیبر پختونخوا کی پولیس کے فیس ماسک اور دیگر سامان استعمال ہوا، اور پسٹل اور پتھر بھی برآمد ہوئے۔

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ 878 شرپسند گرفتار کیے گئے، جن میں سے ایک سو بیس افغانی شامل ہیں، اور زیادہ تر غیر قانونی طور پر پاکستان میں موجود تھے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے 8 حاضر سروس خیبر پختونخوا پولیس اہلکاروں کو بھی پکڑا ہے، اور ریٹائرڈ اہلکار بھی ہمارے ہاتھ آئے ہیں۔ ڈی چوک سے غلیلیں بھی برآمد کی گئیں، اور ہمارے پاس تمام فوٹیجز اور ثبوت موجود ہیں۔