بین الاقوامی شراکت داروں کوتوانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری کی دعوت

بیجنگ۔وفاقی وزیر برائے توانائی سردار اویس احمد خان لغاری نےبین الاقوامی شراکت داروں کو پاکستان کے توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری کی دعوت دیدی۔ چین کے شہر چنگ ڈاؤ میں تیسری بیلٹ اینڈ روڈ انرجی منسٹریل کانفرنس کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چینی قومی توانائی انتظامیہ کو کانفرنس کے انعقاد پر مبارکباد پیش کی ہے

اویس لغاری نے کہا کہ 2019 میں بننے والی بیلٹ اینڈ روڈ انرجی پارٹنرشپ (BREP) نے توانائی کے شعبے میں بنیادی ڈھانچے کو مضبوط کرکےتوانائی کی تجارت اور پائیدار معاشی ترقی کو فروغ دیا ہے۔ پاکستان بیلٹ اینڈ روڈ گرین انرجی تعاون ایکشن پلان (2024-29) اور بیجنگ میں اس شراکت داری کے سیکرٹریٹ کے قیام کی حمایت کرتا ہے۔

چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کے آغاز کے بعد، پاکستان نے چین کی مدد سے بجلی کی قلت پر قابو پا کر توانائی کی طلب کو پورا کرنے کے لیے اہم اقدامات کیے۔ سی پیک کے ذریعے پاکستان نے گزشتہ 10 سالوں میں 15 پاور جنریشن پروجیکٹس کے ذریعے قومی گرڈ میں 8000 میگا واٹ سے زیادہ بجلی شامل کی۔

حالیہ تعاون میں توانائی کی ترسیل اور تقسیم کے بنیادی ڈھانچے کی جدید کاری شامل ہے۔ گزشتہ سال، سی پیک نے دوسرے مرحلے میں داخل ہو کر چین اور پاکستان کے درمیان قابل تجدید توانائی میں تعاون کو فروغ دیا۔ہم نے ماحول دوست ہونے کا ثبوت دیتے ہوئےقومی توانائی کے مرکب میں 60 فیصد قابل تجدید توانائی کا ہدف مقرر کیا ہے۔

پاکستان نے قومی سطح پر ایک نیا ترقیاتی فریم ورک تیار کیا ہے جو پانچ اہم شعبوں پر مشتمل ہے، جنہیں فائو ایز کہا جاتا ہے: انرجی اینڈ انفراسٹرکچر، ای-پاکستان، ایکوٹی اینڈ امپاورمنٹ، ایکسپورٹس، اور انوائرمنٹ اینڈ کلائمٹ چینج۔ یہ فریم ورک بی آر آئی کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔موسمیاتی تبدیلی اور توانائی کی سیکیورٹی کے مسائل کا حل اجتماعی کوششوں اور وسائل کی شراکت سے ہی ممکن ہے۔

حکومت پاکستان صاف توانائی کے منصوبوں کے لیے بین الاقوامی سرمایہ کاری حاصل کرنے کے لیے پرعزم ہے، اسکی مثال BYD کا حب پاور کمپنی کے ساتھ الیکٹرک گاڑیوں کی اسمبلی پلانٹ قائم کرنے کا اعلان ہے۔نجی شراکت داری سے توانائی کے شعبے میں تعاون اور جدت کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔

بین الاقوامی سرمایہ کاروں کوخاص طور پر قابل تجدید توانائی، برقی نقل و حمل، اور گرڈ کی بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری کرنی چاہیے۔روشن اور پائیدار مستقبل کی تخلیق کے لیے باہمی اعتماد اور تعاون کی سخت ضرورت ہے ۔