حکومت کے مہنگائی کم کرنے اور معیشت کو بہتر کرنے کے دعوے جھوٹ ہیں،امیر جماعت اسلامی

اسلام آباد۔امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ امن کے لیے گریٹر ڈائیلاگ کی ضرورت ہے۔ حکومت کے مہنگائی کم کرنے اور معیشت کو بہتر کرنے کے دعوے جھوٹ ہیں، پوری حکومت ہی فارم سنتالیس اور جھوٹ کی بنیاد پر کھڑی ہے۔ نواز شریف کو ستر ہزار جعلی ووٹ ڈلوا کر جتایا گیا، پی پی کو عوام نے مسترد کیا، حکمران کب تک اسٹیبلشمنٹ کے سہارے مسلط ہوتے رہیں گے، یہ دھندہ کب تک چلے گا۔ کراچی اور سندھ میں ضمنی انتخابات میں عوام نے ایک مرتبہ پھر پیپلز پارٹی کو مسترد کیا لیکن عوامی مینڈیٹ کی توہین کی گئی۔ لوگ پیپلز پارٹی کو مسترد کرتے ہیں اور یہ آر اوز اور ڈی آر اوز سے نتیجے بدلوا رہے ہیں۔
امیر جماعت نے کہا ملک میں امن و امان کی صورتحال بہت خراب ہے۔ گزشتہ روز خاص طور پر بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں دہشت گردی کی مذمت کرتے ہیں۔ دہشت گردی کو لگام دینے اور امن و امان کے لیے اتفاق رائے کی ضرورت ہے۔ حکومت یک رخی پالیسی کے بجائے مسئلے کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرے۔باجوڑ میں اندوہناک واقعہ میں جماعت اسلامی کے ضلعی جنرل سیکرٹری حمید صوفی کو شہید کر دیا گیا، جماعت اسلامی نے ہمیشہ عوام کی خدمت کی ہے۔ اگر جماعت اسلامی کے ذمہ داران کو بھی اس طرح سے ٹارگٹ کر کے شہید کیا جائے گا تو آپ سوچ سکتے ہیں کہ پھر اس کے بعد رہ کیا گیا۔ امن کے قیام کی ذمہ داری حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ہے۔جماعت اسلامی واقعات پرخاموش نہیں رہ سکتی ہے ہمارا ایک ایک کارکن ایک ایک فرد اور پاکستان کا ہر فرد قیمتی ہے بالکل اسی طرح قیمتی ہے جس طرح ہمارا فوج کا جوان قیمتی ہے۔ مطالبہ کرتے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کی پوری پالیسی کو ری وزٹ کیا جائے۔حکومت کو چاہیے کہ افغانستان کی حکومت کو باور کروائے کہ وہ اپنی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے دے۔ امن کے لیے پاک افغان بات چیت ہونی چاہیے۔پاکستان حالیہ بدامنی کا مزید متحمل نہیں ہو سکتا۔ ان واقعات کا براہ راست اثرات ہماری معیشت پر پڑتا ہے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے کیا۔اس موقع پر میاں محمد اسلم،امیر جماعت اسلامی اسلام آبادنصر اللہ رندھاوا بھی موجود تھے۔
حافظ نعیم الرحمن نے کہا معیشت کی بہتری سے متعلق حکومتی دعوے جھوٹ ہیں۔ مہنگائی ختم ہونے کے دعوے ہورہے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ عوام پر کیا فرق پڑ رہا ہے، کیا پیٹرول کی قیمت انہوں نے کم کی کیا بجلی کے بلوں میں کوئی کمی کی۔ کیا حکومت نے لوگوں کو کوئی ریلیف دیا، کسان کے لیے یوریا اور ڈی اے پی کو سستا کیا گیا۔ کیا کسی غریب آدمی کے بچے کو بھی کوالٹی کی تعلیم ملنے کا کوئی امکان پیدا ہو گیا ہے آئی پی پیز کا مسئلہ وہیں کا وہیں ہے لوگوں کے بجلی بلوں پر کوئی فرق میں پڑ رہا ہے۔ حکومت نے پانچ آئی پی پیز بند کیں، 13 سے بات کی،لیکن اس کا امپیکٹ بجلی کے بلوں میں نہیں آیا۔ حکومت نے ونٹر پیکج کا اعلان کیا اور لو گوں کو بیوقوف بنایا گیا۔ پٹرول پر ساٹھ روپے لیوی لی جارہی ہے۔ معیشت عوام کو ریلیف دینے اور حکمرانوں کی عیاشیاں ختم کرنے سے بہتر ہوگی۔ 40 فیصد لوگ خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ پاکستان میں 10 کروڑ لوگ غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے ہیں۔ حکومت ہر روز منی بجٹ لاتی ہے۔
امیر جماعت نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے سنجیدہ لوگوں سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ آپ بجھتا ہوا چراغ ہیں۔ آپ جس سطح پر دھاندلی کو لے کر آگئے ہیں جس طرح سے لوگوں کی رائے کو دبا کر رہے ہیں، جمہوریت دشمنی کر رہے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کے سہارے پر جو پیپلز پارٹی کھڑی ہوئی ہے، پورے سندھ میں قبضہ سسٹم چل رہا ہے یہ اسٹیبلشمنٹ کیا کر رہی ہے۔آرمی چیف نے بھی کہا تھا کہ ہم سندھ سے سسٹم ختم کر دیں گے، سسٹم ایک خاص اصطلاح ہے وہاں قبضے کی لیکن اس سسٹم کو اسلام اباد میں لا کے بٹھا دیا گیا۔ انہوں نے کہا نواز شریف نے کہا کہ انہوں نے تو طے کر لیا تھا کہ اکثریت نہیں ہوگی تو وزیراعظم نہیں بنوں گا، ان سے پوچھتا ہوں کہ آپ کو ووٹ نہیں پڑے تو ایم این اے کی سیٹ کیوں لی۔ انہوں نے کہا یہ نظام اپ ختم ہونا چاہیے، پورے نظام کی تبدیلی کی ضرورت ہے سوچ کی تبدیلی کی ضرورت ہے ہم تصادم کے راستے پہ کبھی نہیں جانا چاہتے، ہم اپنے نوجوانوں کو روکتے ہیں لیکن جب آپ ایک یو سی دینے کے لیے تیار نہیں ہیں، ایک ایم پی اے کی سیٹ دینے کے لیے تیار نہیں ہے، تو عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوجائے گا۔ آپ بالکل جمہوریت کو پامال کریں گے تو ہم کتنے کارکنوں کو روک سکیں گے اس لیے حالات کو درست کرنا ان کی ذمہ داری ہے جن کے ہاتھ میں طاقت اور اختیار ہے۔ انہوں نے کہا انٹرنیٹ کا مسئلہ ہے، جب آپ نوجوانوں کے لیے کوئی راستہ ہی نہیں ہے تو پھر فیک نیوز تو چلیں گی۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ عوام اور حکمران طبقے کے درمیان فاصلہ بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ حکمران اشرافیہ سنجیدگی سے سوچے اور مسئلے کو حل کرے۔