اسلام آباد(نیوز رپورٹر)سوشل میڈیا پرآن لائن ہنی ٹریپنگ کے ذریعے بلا سفیمی کیسیز میں پھنسائے جانیوالے بچوں کے وکیل عثمان وڑائچ ایڈووکیٹ نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اس حوالے سےاین سی ایچ آر اور اسپیشل برانچ کی رپورٹ کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک آزاد تحقیقاتی کمیشن تشکیل دیا جائے،جب تک یہ کمیشن تشکیل نہیں پاتا یا اس کی جامع رپورٹ پیش نہیں کرتاتب تک تمام مقدمات کی کاروئی روکی جائےاور بے گناہ اور معصوم بچوں کو رہا کیا جائے،ہنی ٹریپنگ کیلئے استعمال ہونے والی لڑکیوں اور تمام مقدمات کے مدعیوں کے موبائل فون کی فرانزک کی جائے،سندھ ہائیکورٹ کی طرح پنجاب اور اسلام آباد میں بھی مقدمات پر کاروئی روک کر معصوم بچوں کو ضمانتوں پر رہا کیا جائے،جن عدالتوں میں مقدمات زیر التواء ہیں وہاں ملزمان کے ورثاءکو مکمل شواہد کی فراہمی اورانکے موقف کی سنوائی کو یقینی بنایا جائے،بلاسفیمی گروپ کے لوگوں کو شامل تفتیش کیا جائے اور اس گھناؤنے کاروبار میں ملوث پولیس اہلکاروں کی شناخت کرکے انہیں کیفر کردار تک پہنچایا جائے.
وکیل عثمان وڑائچ ایڈووکیٹ نے ان خیالات کا اظہار رانا عبدالحمید ایڈووکیٹ ،ایمان مزاری ایڈووکیٹ اور متاثرہ بچوں کے والدین کے ہمراہ نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا،انکا مزید کہنا تھا کہ پچھلے برس آنے والی اسپیشل برانچ کی ایک رپورٹ کے مطابق ایک مشکوک مذہبی انتہا پسند گروپ مخصوص پلاننگ کے تحت مسلمان بچوں اور بچیوں کو گستاخانہ مواد آن لائن شیئر کرنے کے جال میں پھنسا رہا ہے.
اب تک 450 سے زائدمسلمان نوجوان ، انکے جھوٹے کیسز کی نذر ہو چکے ہیں جن میں 150 سے زائد اڈیالہ جیل،170 سے زائد لاہور کیمپ آفس جیل اور کوٹ لکھپت جیل اور 55 نوجون کراچی سنٹرل جیل کی کال کوٹھڑیوں میں بند ہیں، بلا سفیمی گروپ نے ٹریپنگ کیلئے نوجوان لڑکے اورلڑکیاںبھرتی کر رکھی ہیں جو معصوم نوجوانوںسے سوشل میڈیا پر دوست کتی ہیں اور اپنے پیار کا جھانسہ دیکربلا سفیمی ٹریپ میں پھنساتی ہیں اور دوستی، نوکری،ڈیٹ یا رات گزارنے سمیت مختلف بہانوں سے اسلام آباد کے علاقے جی ایٹ میں واقع سیف ہاؤس بلاتی ہیں جہاں اس گروپ کے کارندے ان لڑکوں پر بہیمانہ تشددکرتے ہیں جس میں الٹا لٹکا کرڈنڈوں سے تشدد کرنا،برہنہ کرکے ویڈیو بنانا،جسم کے نازک حصوں پر کرنٹ لگانا ، گندہ پانی پینے پر مجبور کرنا شامل ہے.
اس گروپ سے منسلک افراد کی تعداد 25 سے 30 ہے جو پورے پاکستان سے نوجوانوں کو ٹریپ کروانے کے بعد مدعی بن جاتے ہیںاور ایک ایک مدعی 20 سے زائد نوجوانوں کو پھنسانے میں ملوث ہے،یہ مدعی ایف آئی آر پر اپنا پتہ بھی غلط لکھواتے ہیں،انکا مزید کہنا تھا کہ عدالت میں چلنے والے کیسزکے پیچھے آنے والے خاندانوں ، ماؤں ،بہنوں کی ویڈیو بنانا، ہراساں کرنا، بعرے بازی کرنا اس گروہ کا وطیرہ ہے،یہ گروہ ججز پر دباؤ ڈال کر اپنے من پسند فیصلے کرواتا ہے،اس گروپ کے منسلک افراد نہ صرف اسلام آباد اور لاہور میں متحرک ہیں بلکہ دوسرے شہروںسے بھی لڑکوں کے اغواء کرکے نامعلوم مقامات پر منتقل کرکے تشدد کرنے بھی ملوث ہیں،اب تک پانچ نوجوان انسانیت سوز سلوک کے نتیجے میں اپنی جان کی بازی ہار چکے ہیں.
انہوں نے مطالبہ کہ اس حوالے سےاین سی ایچ آر اور اسپیشل برانچ کی رپورٹ کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک آزاد تحقیقاتی کمیشن تشکیل دیا جائے،جب تک یہ کمیشن تشکیل نہیں پاتا یا اس کی جامع رپورٹ پیش نہیں کرتاتب تک تمام مقدمات کی کاروئی روکی جائےاور بے گناہ اور معصوم بچوں کو رہا کیا جائے،ہنی ٹریپنگ کیلئے استعمال ہونے والی لڑکیوں اور تمام مقدمات کے مدعیوں کے موبائل فون کی فرانزک کی جائے.
سندھ ہائیکورٹ کی طرح پنجاب اور اسلام آباد میں بھی مقدمات پر کاروئی روک کر معصوم بچوں کو ضمانتوں پر رہا کیا جائے،جن عدالتوں میں مقدمات زیر التواء ہیں وہاں ملزمان کے ورثاءکو مکمل شواہد کی فراہمی اورانکے موقف کی سنوائی کو یقینی بنایا جائے،بلاسفیمی گروپ کے لوگوں کو شامل تفتیش کیا جائے اور اس گھناؤنے کاروبار میں ملوث پولیس اہلکاروں کی شناخت کرکے انہیں کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔