اسلام آباد ۔چیئرمین نیب، لیفٹیننٹ جنرل (ر) نذیر احمد بٹ نے کہا ہے کہ کراچی میں زمینوں کے مسائل کشمیر سے بھی زیادہ سنگین ہیں، جبکہ سندھ میں زمینوں کے ریکارڈ کا کوئی منظم نظام موجود نہیں۔ انہوں نے عندیہ دیا کہ جلد ہی سندھ میں زمینوں کے ریکارڈ کی درستگی کے حوالے سے بڑا اقدام اٹھایا جائے گا۔
اپنے خطاب میں انہوں نے بلڈرز کے مسائل کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ تمام نکات نوٹ کر لیے گئے ہیں اور نیب بلڈرز کے ساتھ ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ نیب قوانین میں اصلاحات کی جا چکی ہیں اور کیسز کے اندراج کے نظام کو جدید خطوط پر استوار کیا گیا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ دیگر اداروں کو موصول ہونے والی 85 فیصد شکایات نیب میں درج کرائی گئیں، اور عوام کو نیب پر اعتماد رکھنا چاہیے کیونکہ کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں ہوگی۔ ان کا کہنا تھا کہ نیب کے نوٹسز قانونی دائرہ کار میں رہتے ہوئے جاری کیے جاتے ہیں اور کسی سے ذاتی عناد نہیں رکھا جاتا۔ ماضی میں نیب کی طرف سے ہونے والی زیادتیوں پر انہوں نے “آباد” تنظیم سے معذرت بھی کی۔
چیئرمین نیب نے کہا کہ اگر کسی نیب افسر نے غیر قانونی طور پر کسی کو ہراساں کیا تو اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ اصلاحات کے بعد نیب کو موصول ہونے والی شکایات کی تعداد 4500 سے کم ہو کر 150 سے 200 تک رہ گئی ہے، کیونکہ نیب اب صرف مصدقہ شکایات پر کارروائی کر رہا ہے۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ سندھ کی زمینوں میں بڑے پیمانے پر جعلسازی ہو رہی ہے، خاص طور پر کراچی میں 7500 ایکڑ اراضی کے جعلی دستاویزات بنائے گئے ہیں، جن کی مجموعی مالیت تقریباً 3 کھرب روپے ہے۔ اگر ان زمینوں کے ریکارڈز کو کھولا جائے تو سنگین بدعنوانی سامنے آئے گی۔
انہوں نے کہا کہ سندھ میں زمینوں کے ریکارڈ کا کوئی مؤثر نظام نہیں، جبکہ لینڈ ڈیپارٹمنٹ کے مختلف محکمے ایک دوسرے سے منسلک نہیں ہیں۔ اس حوالے سے جلد ایک جامع کارروائی کی جائے گی۔
چیئرمین نیب نے ایل ڈی اے، کے ڈی اے، اور ایم ڈی اے سے متعلق رپورٹ طلب کرتے ہوئے کہا کہ وہ ان اداروں کے خلاف کارروائی کریں گے، کیونکہ یہ ادارے گزشتہ 40 سال سے الاٹیز کو قبضے دینے میں ناکام رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر غیر قانونی تعمیرات کی نشاندہی کی گئی تو انہیں قانون کے مطابق منہدم کیا جائے گا۔
کراچی ماسٹر پلان کی بہتری کے لیے انہوں نے ڈی جی نیب کو رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی اور کہا کہ کراچی چیمبر آف کامرس کی بزنس کمیونٹی کو انصاف کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔
گوادر میں بھی کرپشن کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ وہاں نیب کا علاقائی دفتر قائم کر دیا گیا ہے، جہاں زمینوں میں کرپشن کے کئی مقدمات درج کیے جا چکے ہیں، جن کی مجموعی مالیت تقریباً 3 کھرب روپے ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ 2022 سے قبل درج کی گئی 21 ہزار شکایات کو نمٹا دیا گیا ہے، جبکہ نیب میں “ون ونڈو آپریشن” کا آغاز کیا جا رہا ہے۔ پاکستان کے رئیل اسٹیٹ سیکٹر کے لیے نئی پالیسی ترتیب دی جا رہی ہے، جس کے تحت ہر قسم کی مالی ادائیگیاں بینکوں کے ذریعے کی جائیں گی۔
صحافیوں سے گفتگو کے دوران انہوں نے بتایا کہ حکومت جلد ہی فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) میں وسیع پیمانے پر اصلاحات لا رہی ہے، تاکہ اس کا نظام سب کے لیے سہل اور دوستانہ بنایا جا سکے۔ نیب میں ایف بی آر کے کچھ افسران کے خلاف تحقیقات جاری ہیں، اور اگر 50 کروڑ روپے سے زائد کی کرپشن پائی گئی تو نیب فوری حرکت میں آتا ہے۔
انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ کراچی میں دوبارہ نسلہ ٹاور جیسا کوئی واقعہ رونما نہیں ہوگا، کیونکہ نیب کے اندرونی نظام میں بھی اصلاحات کی گئی ہیں اور بدعنوان افسران کو برطرف کیا جا چکا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ نیب میں کرپشن کے خلاف مزید سخت اقدامات کیے جا رہے ہیں، تاکہ ادارے کے شفافیت اور مؤثریت کو یقینی بنایا جا سکے۔