پاکستان کے معدنی وسائل کی ملکی معیشت میں اہمیت

ٰپاکستان قدرتی وسائل کے ذخائر سے خود کفیل ہے یہ اقتصادی اور صنعتی ترقی کے لیے بے پناہ صلاحیت رکھتے ہیں۔ ملک میں کوئلہ، تانبہ، سونا، لوہا، کرومائیٹ، اور قیمتی پتھروں سمیت معدنی وسائل کے وسیع ذخائر موجود ہیں، جو کان کنی کے شعبے کی ترقی اور قومی معیشت میں مثبت کردار ادا کرنے کے لیے ایک مضبوط بنیاد فراہم کرتے ہیں اس بے پناہ صلاحیت کے باوجود، معدنی شعبہ فی الحال ملک کی مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) میں صرف 3.2 فیصد حصہ ڈالتا ہے، جبکہ برآمدات عالمی سطح پر صرف 0.1 فیصد ہیں۔ تاہم ان معدنیات کی بڑھتی ہوئی تلاش، غیر ملکی سرمایہ کاری، اور بنیادی ڈھانچے میں بہتری کے ساتھ، پاکستان کی کان کنی کی صنعت نمایاں ترقی کے لیے تیار ہے۔ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان کے معدنی وسائل تقریباً 600,000 مربع کلومیٹر پر محیط ہیں اورملک میں 92 معدنیات کی نشاندہی ہو چکی ہے، جن میں سے 52 تجارتی پیمانے پر نکالی جا سکتی ہیں، اور سالانہ اندازاً 68.52 ملین میٹرک ٹن معدنیات حاصل کی جارہی ہیں۔ یہ شعبہ 5,000 سے زائد فعال کانوں، 50,000 چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں (SMEs) کو سہولت اور 300,000 افراد کو روزگاربھی مہیا کرتا ہے۔

اس وقت پاکستان کے قابل ذکر معدنی ذخائر میں دنیا کے دوسرے بڑے نمک کے ذخائر، پانچویں بڑے تانبا اور سونے کے ذخائر، اور نمایاں کوئلے کے ذخائر شامل ہیں۔ مزید برآں، باکسائٹ، جپسم، اور قیمتی پتھروں جیسے یاقوت، پکھراج، اور زمرد کے وافر ذخائر موجود ہیں، جو برآمدات کے لحاظ سے نمایاں صلاحیت رکھتے ہیں۔ عالمی سطح پر معدنی وسائل اقتصادی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ چین، اٹلی، ترکی، اسپین، اور برازیل سمیت کئی ترقی یافتہ ممالک نے اپنے معدنی وسائل کو مؤثر طریقے سے استعمال کرکے صنعتی ترقی، روزگار میں اضافے، اور فی کس آمدنی میں بہتری حاصل کی ہے۔

واضع رہے پاکستان کا معدنی شعبہ بھی اسی طرح ترقی کی صلاحیت رکھتا ہے۔بہتر حکمت عملی کے تحت منصوبہ بندی اور سرمایہ کاری کے ذریعے ملک تجارت کو بہتر بنا سکتا ہے، روزگار کے مواقع پیدا کر سکتا ہے، اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی کو فروغ دے سکتا ہے، جو بالآخر اقتصادی ترقی کو تیز کرے گا اوربڑھتی ہوئی معدنی تلاش اور ویلیو ایڈیشن (قدر میں اضافہ) سے آمدنی میں نمایاں اضافہ ہو سکتا ہے۔ بہت سے ممالک خام معدنیات درآمد کرکے انہیں بہتر بنا کر اعلیٰ قیمتی مصنوعات کے طور پر برآمد کرتے ہیں۔ پاکستان بھی اس ماڈل کو اپناتے ہوئے معدنی پراسیسنگ اور ریفائننگ انڈسٹریز قائم کر سکتا ہے، جس سے زیادہ مالیت کی برآمدات ممکن ہوں گی اور خام مال کی درآمد پر انحصار کم ہو جائے گا۔

اس وقت پاکستان کا معدنی شعبہ بڑھتی ہوئی غیر ملکی سرمایہ کاری کو اپنی طرف متوجہ کر رہا ہے، اور عالمی کمپنیاں ملک کے غیر استعمال شدہ معدنی ذخائر میں دلچسپی لے رہی ہیں۔ بلوچستان کے ضلع چاغی میں واقع ریکوڈک کاپر اور گولڈ پروجیکٹ دنیا کا سب سے بڑا غیر دریافت شدہ تانبے کا ذخیرہ ہے اور پاکستان کی کان کنی کے شعبہ کے لیے ایک سنگ میل ثابت ہو رہا ہے۔ اس منصوبے کو کینیڈا کی کمپنی بیرک نے دوبارہ فعال کیا ہے جوکہ اس منصوبے میں 50 فیصد کا مالک ہے۔ ریکوڈک پروجیکٹ کی کامیابی سے 2028 تک تانبے اور سونے کی پیداوار شروع ہو جائے گی، جس میں ابتدائی طور پر 5.5 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی گئی ہے۔ بیرک کے سی ای او مارک برسٹو کے مطابق یہ ذخیرہ اگلے 37 سالوں میں تقریباً 74 بلین ڈالر کا مفت کیش فلو پیدا کرے گا۔

یہ کان سالانہ 2.8 بلین ڈالر کی برآمدات پیدا کرے گی، ہزاروں ملازمتوں کے مواقع فراہم کرے گی، اور مقامی معیشت کو تبدیل کرے گی۔ یہ منصوبہ تانبے کی پیداوار کو 400,000 ٹن اور سونے کی پیداوار کو 500,000 اونس سالانہ تک بڑھا دے گا، جس میں اضافی 3.5 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری شامل ہوگی۔

بین الحکومتی معاہدے کے تحت، وفاقی کابینہ نے ریکوڈک منصوبے میں سعودی عرب کو 15 فیصد حصص فروخت کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ یہ معاہدہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ پاکستان کا معدنی شعبہ غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے ایک اہم مرکز بن رہا ہے۔ سعودی عرب کی مائننگ کمپنی، منارہ منرلز، اس منصوبے میں 15 فیصد حصص حاصل کرے گی، جس کے لیے ممکنہ طور پر 1 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری متوقع ہے۔پاکستان میں بنیادی ڈھانچے کی ترقی معدنی صنعت کی مکمل صلاحیت کو بروئے کار لانے کے لیے نہایت اہم ہے۔ چین-پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) معدنی وسائل کی نقل و حمل اور برآمدی لاجسٹکس کو تبدیل کرنے میں کلیدی کردار ادا کر رہی ہے۔ گوادر پورٹ اور پورٹ قاسم معدنی برآمدات کو بڑھانے کے لیے تیار ہیں، جبکہ بہتر سڑک اور ریل نیٹ ورک کان کنی کے علاقوں اور صنعتی مراکز کے درمیان بہتر رابطے کو یقینی بنائے گا۔

ریکوڈک کان کے لیے لاجسٹکس کا انتظام پاکستان ریلوے کے تعاون سے قائم کیے جانے والے ریلوے ٹریک کے ذریعے کیا جائے گا۔ اس ریلوے ٹریک کے ذریعے کراچی سے کان کے لیے ضروری سامان پہنچایا جائے گا اور تانبے اور سونے کے مرکب کو کراچی سے برآمد کیا جائے گا۔ ریکوڈک کے علاوہ، بلوچستان میں 40 سے زائد معدنی وسائل موجود ہیں، جن میں تیل، گیس، یورینیم، اور کوئلہ شامل ہیں، جو پاکستان کی توانائی اور صنعتی ضروریات کو کئی دہائیوں تک پورا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ مزید برآں، ریفائنریوں کے قیام پر بھی کام جاری ہے، جو پاکستان کی خام مال کی برآمد پر انحصار کم کرے گا۔

حکومت وقت معدنی شعبے کی صلاحیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ”نیشنل منرلز ہارمونائزیشن فریم ورک 2025“ کو حتمی شکل دے رہی ہے، جو ایک جامع پالیسی ہے جس کا مقصد سرمایہ کاری کو راغب کرنا اور قومی و صوبائی سطح پر ضوابط کو منظم کرنا ہے۔ یہ فریم ورک مقامی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو مراعات فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ کان کنی کے ضوابط کو آسان بنائے گا اور عوامی و نجی شراکت داری کو فروغ دے گا۔

اس حوالے سے ایک اہم پیش رفت”پاکستان منرلز انویسٹمنٹ فورم (PMIF25) 2025“ ہے، جو 8اور9 اپریل کو اسلام آباد میں منعقد ہوگا۔ اس ایونٹ میں عالمی وزراء، بڑی کارپوریشنز، سرمایہ کار، پالیسی ساز، اور صنعت کے ماہرین شرکت کریں گے تاکہ معدنی شعبے میں سرمایہ کاری کے مواقع، تکنیکی ترقی، اور پالیسی فریم ورک پر تبادلہ خیال کیا جا سکے۔ پاکستان کے معدنی وسائل میں بے پناہ معاشی صلاحیت موجود ہے۔ حکمت عملی پر مبنی سرمایہ کاری، بنیادی ڈھانچے میں بہتری، اور قدر میں اضافہ کے ذریعے کان کنی کا شعبہ قومی اقتصادی ترقی کا ایک اہم محرک بن سکتا ہے۔